مسجد میں سیاسی تقریریں:
ہمارے زمانے میں سیاسی تقریروں کا رواج مسجد میں عام ہوتا جا رہا ہے اور وہ بھی آدابِ مسجد کا لحاظ نہ کرتے ہوئے، یہ چیز بھی پسندیدہ نہیں ہے، ایسی غیر ذمہ داری کی باتیں جو کہیں بھی کہنی جائز نہیں ہیں، ان کا مسجد میں کہنا کیوں کر جائز ہوسکتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ ’’مسجدوں کو بچوں، جھگڑوں، بلند آوازی، اجرائے حدود اور تلوار کھینچنے سے بچاؤ‘‘۔1 اور آج کل مسجدوں میں جو سیاسی جلسے ہوتے ہیں، ان میں تقریباً یہ تمام چیزیں کم وبیش پائی جاتی ہیں۔ اور ان سے بڑھ کر ’’آزارِ مسلم‘‘ جزِ تقریر ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے۔ اَلْمُسْلِمُ
مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ۔
دینی باتیں اگر مسجد میں کہی جائیں تو کوئی مضایقہ نہیں، بلکہ بڑی حد تک یہ اغراض ومقاصدِ مسجد میں داخل ہیں۔ یا ایسی سیاسی باتیں جن کا دین سے لگاؤ ہو، مسلمانوں سے کہی جاسکتی ہیں، کہ عہدِ نبوی میں مسجدِ نبوی ان باتوں کا مرکز رہ چکی ہے، مگر آداب اور احترام واکرام بہرحال ضروری ہے۔
مسجد میں بلند آوازی:
ابھی ’’ابن ماجہ‘‘ والی حدیث میں یہ بات گزری کہ مسجد میں بلند آوازی نہ ہونے پائے، صحابۂ کرام ؓ کا عمل اس باب میں جیسا رہا، وہ مشعلِ راہ بنایا جاسکتا ہے کہ وہ دربارِ نبوی کے حلقہ بگوش تھے۔ حضرت سائب بن یزید ؓ بیان کرتے ہیں: میں ایک دن مسجد میں سویا ہوا تھا، کنکری مار کر کسی نے جگا دیا، دیکھا تو فاروقِ اعظم ؓ تھے۔ آپ نے دو شخصوں کی طرف اشارہ کیا، وہ مسجد میں شور وغل کر رہے تھے۔ اور فرمایا: ان کو پکڑ لاؤ میں نے حسب الحکم ان دونوں کو ان کی خدمت میں لے جاکر حاضر کردیا۔ آپ نے ان سے پوچھا: کہاں رہتے ہو؟ ان لوگوں نے طائف کا نام لیا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: اگر تم مدینہ منورہ کے ہوتے تو سزا دیتا، تم مسجدِ رسول میں شور وغل کرتے ہو، جاؤ! آج صرف اس وجہ سے معاف کیا جاتا ہے کہ