مسجد میں تھوک دیکھا جائے تو اس پر مٹی ڈال دی جائے اگر فرش کچا ہے، یا کھرچ کر پھینک دیا جائے۔ اور فرش پختہ ہے تو اس کو صاف کرے دھوکر یا کپڑے سے اٹھا کر، کیوں کہ فرش پر ملنے سے اور گندگی پھیل جائے گی۔ صاف کرنے میں اس کا خیال رہے کہ کوئی اثر گندگی کا باقی نہ رہنے پائے، اور ہوسکے تو خوشبو لے کر مل دے۔2
قفال ؒ نے اپنی فتاویٰ میں لکھا ہے کہ دفن کرنے کا جس کو حکم ہے وہ منہ اور سر سے اترنے والا تھوک ہے، باقی جو بلغم سینہ سے آتا ہے وہ نجس ہے، اسے کسی حال میں مسجد میں دفن نہ کیا جائے گا۔3
دفن کے معنی عام لیے جائیں، یعنی اس کو صاف کردینا، اس طرح کہ ظاہری طور پر اس کا کوئی اثر باقی نہ رہے، تاکہ اشکال سرے سے ختم ہوجائیں، کیوں کہ گھن جس سے آتی ہو اسے مسجد میں دفن کرنا کسی طرح اچھا نہیں معلوم ہوتا ہے۔
حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کے متعلق آیا ہے کہ انھوں نے ایک رات مسجد میں تھوک دیا اور صاف کرنا بھول گئے، گھر واپس پہنچ چکے تو ان کو یاد آیا، فوراً روشنی لے کر مسجد تشریف لائے اور اسے تلاش کر کے صاف کیا۔4
صاحب ’’فتح الباري‘‘ نے حضرت ابوذر ؓ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
وَجَدْتُ فِيْ مَسَاوِيْ أَعْمَالِ أُمَّتِيْ النُخَاعَۃَ تَکُوْنُ فِي الْمَسْجِدِ لَا تُدْفَنُ۔ (۱/۳۴۵)
میں نے اپنی امت کے برے اعمال میں اس گاڑھے تھوک کو بھی پایا جو مسجد میں ڈالا گیا، مگر صاف نہ کیا گیا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد کے گندہ کرنے کا گناہ نامہ اعمال میں ثبت ہو جاتا ہے اور قیامت کے دن حساب کتاب میں وہ چیز بھی سامنے لائی جاتی ہے، پس ہر مسلمان کو چاہیے کہ مسجد میں کوئی ایسا تنکا بھی نہ ڈالے جس سے گندگی معلوم ہو، اور اگر کوئی ایسی چیز دیکھ لے تو فوراً صاف کردے۔ امام کی تو خصوصیت سے یہ ذمہ داری ہے کہ مسجد کی صفائی کی دیکھ بھال کرے اور اس کی نگرانی کرے، کہ خود سرکارِ دو عالم ﷺ نے اس کام کو انجام دیا ہے۔1
مسجد گندی کرنے کی سزا:
حضرت سائب بن خلاد ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے قوم کی امامت کی، اتفاق کی بات اس نے جانبِ قبلہ تھوک دیا، جسے آں حضرت ﷺ نے بچشمِ خود دیکھ لیا۔ آپ کو یہ دیکھ کر بڑی تکلیف ہوئی، آپ نے سختی سے فرمایا کہ ’’اس کو اب امامت نہ کرنے دینا‘‘۔ چناں چہ لوگوں نے اس کو دوبارہ امامت نہ کرنے دی۔ اس کو جب آپ کا واقعہ معلوم ہوا تو وہ دربارِ