عہدِ نبوی کی پہلی مسجد:
ابوالبشر آدم ؑ سے نبوت کا جو سلسلہ شروع ہو کر چلا آرہا ہے، وہ آکر سید البشر خاتم النبیین ﷺ پر ختم ہوگیا۔ آپ پر دین کی تکمیل اور نبوت ورسالت کے اختتام کا اعلان کردیا گیا:
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط}۔2
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے دینِ اسلام پسند کیا۔
آں حضرت ﷺ کی ابتدائی زندگی جن مصیبتوں اور تکلیفوں میں گھری ہوئی، اور جن دل ہلا دینے والی آفتوں اور پریشانیوں سے لبریز تھی، اس کی کوئی ادنی مثال تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ مکی زندگی جن مشکلات ومصایب سے پُر گزری ہے، اسے سیرت کی کتابوں میں مطالعہ کریں۔ آپ کو اور آپ کے جان نثاروں کو جس قسم کی اذیتیں دی گئیں، صرف اس کے تصور سے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسے نازک اور کٹھن دور میں باضابطہ مسجد کی تعمیر کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا، پھر مسجدِ حرام موجود ہی تھی جس سے حصولِ اطمینان کے وقت کام لیا جاسکتاتھا۔
یہی وجوہ ہیں کہ مکی زندگی میں کسی باضابطہ مسجد کی تعمیر کا پتہ نہیں ملتا، چھپ چھپا کر لوگ نماز پڑھ لیتے تھے، آں حضرت ﷺ کسی صحابی ؓ کے یہاں جلوہ افروز ہوتے اور تمام صحابہ کرام پروانہ وار جمع ہو جاتے، اور اسی مجلس میں آپ تبلیغ وتلقین فرماتے، گویا جماعت کی نماز کا کوئی خاص اہتمام نہ تھا، جہاں وقت آجاتا نماز پڑھ لی جاتی۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں:
کان النبي ﷺ یصلي قبل أن یبنی المسجد حیث أدرکتہ الصلاۃُ۔1
مسجد بننے سے پہلے نبی کریم ﷺ جہاں وقت آتا نماز پڑھ لیتے۔
البتہ بعض صحابۂ کرام ؓ نے اپنے گھروں میں نماز کے لیے ایک جگہ متعین کرلی تھی، جہاں وہ تہجد ونوافل اور گریہ وزاری میں رات کے وقت مشغول ہوتے اور اللہ تعالیٰ سے طلبِ مغفرت کرتے، جن کو فقہ کی اصطلاح میں مسجد البیت کہہ سکتے ہیں، انہی کو بعض محدثین نے مسجد سے تعبیر کیا ہے۔