میں شیطان کی سوزش بھی خوب ہے۔ اسی طرح حدیث میں اشارہ ہے کہ ’’ایک فقیہ شیطان کے حق میں ہزار عبادت گزار سے سخت ہے‘‘۔ اور جب نماز کے لیے اذان پکاری جاتی ہے تو شیطان بے تحاشا بھاگتا ہے۔2
اذان کو مسجد کے اجتماع میں بڑا دخل ہے، اسی وجہ سے اس کو آں حضرت ﷺ نے شعارِ دین میں داخل فرمایا ہے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے:
کان النبي ﷺ یُغِیر إذا طلعَ الفجر، وکان یستمع الأذانَ، فإن سمع أذانًا أمسک، وإلا أغار۔ رواہ مسلم۔
نبی کریم ﷺ فجر طلوع ہوتی تو چھاپہ مارتے اور کان لگا کر اذان سنتے، اگر اذان سن لیتے تو رک جاتے، ورنہ حملہ کرتے۔ (مشکاۃ: باب فضل الأذان)
انہی حضرت انس ؓ کا ایک اور بیان ہے:
أن النبي ﷺ إذا غزا بنا قوما لم یکن یغزو بنا حتی یصبح، وینظر إلیہم، فإن سمع أذانا کف عنہم، وإن لم یسمع أذانا أغار علیہم۔ (المشکاۃ: باب الکتاب إلی الکفار)
نبی ﷺ جب ہم کو لے کر غزوہ کے لیے نکلتے تو جب تک صبح نہ ہو جاتی اور ان کو دیکھ نہ لیتے، حملہ نہ کرتے، اذان سنتے تو رک جاتے، اور نہیں سنتے تو حملہ آور ہوتے۔
اذان شیطان کے لیے:
اذان چوں کہ نمازیوں کے لیے مسجد آنے کی دعوت ہے اور شیطان اس کارِخیر کا دشمن ہے، وہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کو کوئی ادا نہ کرے، اور وہ ہمیشہ وسوسے کی فکر میں رہتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس اذان میں ایسی تاثیر رکھی ہے جس سے شیطان پناہ مانگتا ہے، یہ اس پر بجلی کا اثر رکھتی ہے۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں:
سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ الشَّیْطَانَ إِذَا سَمِعَ النِّدَائَ بِالصَّلَاۃِ ذَہَبَ، حَتَّی یَکُوْنَ مَکَانَ الرَّوْحَاء۔ (المشکاۃ: باب فضل الأذان)
میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ’’نماز کی اذان جب شیطان سنتا ہے تو بھاگ کھڑا ہوتا ہے، تاآں کہ مکانِ روحا پر رکتا ہے‘‘۔