یہی وجہ ہے کہ ربِّ ذوالجلال والاکرام نے جن کو حقِ تعمیر بخشا ہے، ان کے لیے ظاہری اور معنوی دونوں طرح کی پابندی رکھی ہے، یعنی ان کا دل اور باطن بھی مومن ہو اور ظاہر اور جسم بھی، قلب ایمان کی دولت سے معمور ہو تو جسم عمل کی دولت سے مالا مال:
{اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُہْتَدِیْنَO}1
اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنا انھی لوگوں کا کام ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائیں اور نماز کی پابندی کریں اور زکاۃ دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں، پس انھیں سے توقع ہے کہ مقصود کو پہنچ جائیں۔
’’ایمان باللہ‘‘ لاکر بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ سے اس کو سچی عقیدت ہو، اور اپنے کو صحیح معنی میں احکامِ الٰہی کے تابع قرار دے لے، اور آخرت پر ایمان سے یہ ظاہر فرمایا گیا کہ اس کو اپنے سارے کاموں کے حساب وکتاب کی ذمہ داری کا پورا احساس بھی ہو، اور پھر اس میں کامیابی اور ناکامی پر ثواب وعقاب کا یقین بھی، یہ دل اور نیت کی اصلاح کی شرط ہے۔ باقی ظاہری طور پر بھی وہ ایسا ہو جس سے خدا پرستی نمایاں ہو۔ بدنی اعتبار سے بھی اور مالی لحاظ سے بھی، جس کو ’’اقامتِ صلاۃ اور ادائے زکاۃ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کاموں میں شہرت وعزت اور ریا وسمعہ کا فریب آجاتا ہے، اس لیے یہ بھی فرما دیا گیا کہ یہ سب کسی اور کے خوف سے نہ ہو، بلکہ جو کچھ ہو رب العزت کی خشیت سے ہی ہو، جس کو {وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ} کے مختصر جملہ میں بیان فرمایا ہے۔ ماحصل یہ ہے کہ مقابلے کے وقت چاہے وہ ذہنی ہو، چاہے خارجی، اللہ تعالیٰ کی خشیت غالب رہے۔
کوئی جب ان ساری خصوصیتوں سے سرفراز ہو کر دربارِ الٰہی کی خدمت انجام دے گا، تب کہیں جاکر وہ اس کام میں حق راستہ کو پائے گا۔ اور یہ کھلی حقیقت ہے کہ ان میں سے شاید
کوئی خصوصیت بھی مشرک میں نہیں پائی جاتی، بخلاف مومن کے، کہ وہ کسی نہ کسی درجے میں ضرور ان کا حامل ہوتا ہے۔
بار بار غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کی خدمت کے لیے ان قیود کو کیوں بیان فرمایا؟ کیا ان سے مسجدوں کی عظمت وشوکت کا اظہار نہیں ہوتا ہے؟
یَعْمُرُ کے معنی: