خطیب قوم کا بہترین شخص ہوگا، اس پر اثنائے خطبہ میں ایسی کیفیت طاری ہو کہ اُس کی زبان سے جو بات نکلے، اثر میں ڈوبی ہوئی ہو، تاکہ قوم کے قلب وجگر پر تیر کی طرح وہ بات لگتی چلی جائے، سرکارِ دو عالم ﷺ کا طرزِ خطابت اس دن اسی انداز کا ہوتا تھا۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں:
کان رسول اللّٰہ ﷺ إذا خطب احمرت عیناہ، وعَلَا صوتُہ، واشتد غضبہ، حتی کأنہ منذر جیش، ویقول: صبحکم ومساکم، ویقول: بعثت أنا والساعۃ کھاتین، ویقرن بین إصبعیہ السبابۃ والوسطی۔ إلخ (مسلم: کتاب الجمعۃ: ۱/۲۸۴)
آں حضرت ﷺ جب خطبہ دیتے تو آنکھیں سرخ ہو جاتیں، اور آواز بلند اور لب ولہجہ میں شدت پیدا ہو جاتی، معلوم ہوتا آپ کسی لشکر سے ڈرا رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ وہ لشکر اب صبح وشام میں ٹوٹ پڑنے والا ہے، اور فرماتے کہ ’’قیامت اور میرے درمیان بس اتنا فرق ہے جتنا شہادت اور درمیانی انگلی کے درمیان‘‘۔
امام کی ظاہری ہیئت:
اس دن امام کی ظاہری ہیئت بھی ذرا عمدہ اور نمایاں ہونی چاہیے، آں حضرت ﷺ کے متعلق کتبِ حدیث میں اس طرح کی باتیں ملتی ہیں۔ حضرت عمرو بن حریث کا بیان ہے:
أن النبي ﷺ خطبَ، وعلیہ عمامۃ سوداء، قد أرخی طرفَیہا بین کتفیہ یوم الجمعۃ۔ (مسلم)
جمعہ کے دن آں حضرت ﷺ سیاہ عمامہ باندھ کر خطبہ ارشاد فرماتے، جس کے دونوں کنارے آپ کے شانوں کے درمیان لٹکتے ہوتے۔
سامعین کا لحاظ:
جمعہ کے دن جو مستحباب ومسنونات ہیں، ان کو سامنے رکھ لیجیے تو اجتماع کی شان وشوکت اور بھی نمایاں ہوگی، غسل، مسواک، خوشبو حتی المقدور، اچھا لباس وغیرہ وغیرہ۔ پھر امام کو ہدایت ہے کہ خطبہ ایسا دے کہ سامعین پورے کیف ونشاط کے ساتھ سنیں، ان کے جوش وانبساط میں کوئی فرق نہ آئے۔ ارشادِ نبوی ہے: