الفاظِ حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ثواب کی زیادتی میں جگہ اور مکان کو بڑا دخل ہے، جو ثواب مسجد کی جماعت کا ہے وہ گھر کی جماعت کا نہیں، اور جتنا ثواب گھر کی نماز باجماعت کا ہے، بازار کی باجماعت نماز کا نہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ منفرد کی نماز بھی ہو جاتی ہے اور اس طرح فرضیت بھی ذمہ سے ساقط ہو جاتی ہے، مگر ثواب میں ان دونوں (باجماعت اور انفرادی) نماز میں بڑا فرق ہے، قلب وجگر پر اثرات کے ترتب میں ایک کو جو درجہ حاصل ہے وہ دوسری (منفرد کی نماز) کو نہیں، اجتماع کو اس باب میں بڑا دخل ہے، یہی وجہ ہے کہ جماعت جس قدر بڑی ہوتی ہے اسی اندازہ سے فضیلت بڑھتی جاتی ہے، حدیث میں ہے:
إِنَّ صَلَاۃَ الرَّجُلِ مَعَ الرَّجُلِ أَزْکَی مِنْ صَلَاتِہِ وَحْدَہُ، وَصَلَاتُہُ مَعَ الرَّجُلَیْنِ أَزْکَی مِنْ صَلَاتِہِ مَعَ رَجُلٍ، وَمَا کَثُرَ فَہُوْ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ۔ (أبو داود: باب ما جاء في فضل الجماعۃ)
مرد کی نماز ایک شخص کے ساتھ اس کی تنہا نماز سے پاکیزہ تر ہے، اور اس کی نماز دوشخصوں کے ساتھ ایک شخص کے ساتھ والی نماز سے افضل ہے، اور جماعت میں جس قدر زیادتی ہو اللہ تعالیٰ کو وہ اور بھی محبوب ہے۔
نظمِ جماعت میں ثواب کی زیادتی کی تفصیل:
ابھی ابھی جو ایک حدیث میں پچیس اور دوسری میں ستائیس گنا کا جملہ آیا ہے، یہ کوئی ایسا اہم مسئلہ نہیں کہ خواہ مخواہ اس کی کرید میں لگ جائیں، یہ دو کا فرق محض حسنِ عمل، حسنِ نیت، مسجد کے قُرب وبُعد، خضوع وخشوع اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کی وجہ سے ممکن ہے، یا صرف زیادتیٔ ثواب بتانا ہے، عدد تعیین کے لیے نہیں ہے، اور بھی وجہ نکل سکتی ہے۔ چناں چہ حافظ ابن حجر ؒ نے ان دونوں حدیثوں میں تطبیق کی بہت سی شکلیں لکھی ہیں، مگر ان میں راجح انھوں نے اپنے ذوق کے مطابق اس صورت کو قرار دیا ہے کہ یہ فرق سری اور جہری نماز کا ہے، کہ سری میں دو کم یعنی پچیس گنا اور جہری میں دو زیادہ یعنی ستائیس گنا۔ پھر اس کی تفصیل بیان کر کے اپنے اس قول کو مدلل فرمایا ہے۔ تفصیل اہلِ علم کے لیے قابلِ مطالعہ ہے، ملاحظہ فرمایا جائے:
۱۔ مؤذن کی دعوت جماعت کی نیت سے قبول کرنا۔
۲۔ اذ۱ن سنتے ہی نماز کے لیے جلدی کرنا اور اول وقت میں چلنا۔