مساجد کے اجتماعی نظام کی مختصر تفصیل گزشتہ صفحات میں آپ نے ملاحظہ فرمائی، جس سے ان گھروں کی دینی اور دنیوی اہمیت کا اندازہ ہوا ہوگا، اور آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ ان کا وجود ہمارے لیے کس قدر ضروری ہے، اور قدرت نے اس سلسلے کو قائم ودائم فرما کر ہم پر کتنا احسان کیا۔
اب بتانا ہے کہ اسلام نے ان مقدّس درباروں کو کیسے سراہا ہے اور ان کی قدر ومنزلت کس پیرایہ میں بیان کی ہے۔ یکسر اُن کو مشکاۃِ نبوت کی روشنی میں دیکھئے، اور کتابِ الٰہی میں تلاش کیجیے۔
قرآن میں تذکرہ:
سب سے پہلے اس سلسلے میں کتابِ الٰہی کی چند آیتیں درج کی جاتی ہیں، جن میں صاف لفظوں میں ان کی شرافت وقبولیت کا اعلان کیا گیا ہے، اُن کی ظاہری وباطنی وقعت کی طرف اشارہ ہے۔
مساجد خدا کی ہیں:
دنیا اور دنیا کی ساری مخلوقات اللہ تعالیٰ کے قبضے وقدرت میں ہیں، اور سب کی سب اُسی کی قدرت سے خلعتِ وجود سے ممتاز ہیں، دنیا کا کوئی ذرّہ ایسا نہیں ہے جس کو کہا جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ نہیں، لیکن جس کو اللہ تعالیٰ خود کہہ دے: ’’یہ میرا ہے‘‘ اس کی قسمت کا کیا کہنا، اس کی عزت وقبولیت اپنا ایک خاص مقام حاصل کرلیتی ہے، جو دوسرے کے حصہ میں نہیں ہے۔ انھی میں یہ مقدّس دربار بھی ہیں جن کو ہم ’’مسجد‘‘ کے مختصر لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کی نسبت رب العزت نے اپنی جانب فرمائی ہے اور ان کو اپنے ذکر کے لیے مخصوص فرمایا ہے، جس میں کسی اور کی شرکت منظور نہیں: