نماز کی تاکید کے لیے نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے۔
’’مسلم شریف‘‘ میں ایک لمبی حدیث ہے، جس سے مسئلے کی اہمیت خوب ذہن نشین ہو جاتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں:
لقد رأیتنا وما یتخلف عن الصلاۃ إلا المنافق قد علم نفاقہ، أو مریض، إن کان المریض یمشي بین رجلین حتی یأتي الصلاۃ۔ وقال: إن رسول اللّٰہﷺ علَّمَنا سنن الہدی، وإن من سنن الہدی الصلاۃ في المسجد الذی یؤذن فیہ۔ وفي روایۃ قال: من سرہ أن یلقی اللّٰہ تعالٰی غدا مسلمًا، فلیحافظ علی ہٰؤلائِ الصَلَوَات حیث ینادی بہن؛ فإن اللّٰہ شرع لنبیکم سنن الہدی، وإنھن من سنن الہدی، ولو أنکم کنتم صلیتم في بیوتکم کما یصلي ہذا المتخلف في بیتہ، لترکتم سنۃ نبیکم، ولو ترکتم سنۃ نبیکم لضللتم۔ وما من رجل یتطہر فیحسن الطہور، ثم یعمد إلی مسجد من ہذہ المساجد، إلا کتب اللّٰہ لہٗ بکل خطوۃ یخطوہا حسنۃ، ویرفعہ بہا درجۃ، ویحط عنہ بہا سیئۃ۔ ولقد رأیتنا وما یتخلف عنہا إلا منافق معلوم النفاق، ولقد کان الرجل یؤتٰی بہٖ یہادی بین الرجلین، حتی یقام في الصف۔ (۱/۲۳۲)
بلاشبہ ہمیں معلوم ہے کہ بجز کھلے ہوئے منافق یا بالکل نڈھال بیمار کے اور کوئی جماعت کی نماز سے نہیں بچھڑتا ہے، بلکہ جو بیمار بھی ہیں وہ بھی دو شخصوں کے سہارے چل کر نماز کے لیے مسجد میں آتے ہیں۔ اور انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے سننِ ہدی کی ہمیں تعلیم فرمائی، اور بے شک اس مسجد میں نماز پڑھنا جس میں اذان دی جائے سننِ ہدی ہی سے ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’جس کو یہ بات خوش لگتی ہے کہ وہ کل (بعد موت) اللہ سے حالتِ اسلام پر ملے، تو اس کو چاہیے کہ تمام نمازوں کے لیے جو نہی اذان پکاری جائے، مسجد میں حاضری دے‘‘۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے سننِ ہدیٰ کو مشروع فرمایا ہے اور انھی سے نمازیں ہیں۔ اور اگر (کہیں) تم نے بھی منافق کی طرح گھروں میں ہی نماز پڑھ لی تو بالیقین تم نے اپنے نبی ﷺ کی سنت ترک کردی، اور اگر تم نے (خدانخواستہ) ترکِ سنت کو عادت بنالیا تو پھر تمہاری گمراہی میں کوئی شبہ نہیں۔ جو بھی خوب پاک وصاف ہو کر کسی مسجد کی طرف جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کے ہر قدم کے بدلے ایک نیکی لکھتا ہے، ایک درجہ بلند کرتا ہے، اور ایک گناہ مٹاتا ہے، اور ہمیں یقین ہے کہ بغیر عذرِ شرعی بجز منافق اور کوئی جماعت کی نماز سے نہیں کتراتا، کیوں کہ مومن مرد جو دوسروں کے سہارے بھی آسکتا ہے، تو بھی آتا ہے، اور صف میں مل کر نماز پڑھتا ہے۔
ان حدیثوں سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ جماعت کی نماز کی بہت سخت تاکیدیں آئی ہیں، اس راہ میں مشقت ودقت کی پرواہ نہ کرنا چاہیے، تاآں کہ بیمار وغیرہ جیسے معذورین کے لیے مسجد پہنچنا ممکن ہو تو اس کے لیے بھی مستحب ہے کہ مسجد ہی آئے۔ ایک دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعی آپ تارکِ جماعت کو جلا کر مار ڈالتے اگر آپ کو عورتوں اور چھوٹے بچوں کا خیال نہ ہوتا۔1
جو لوگ اذان سنتے ہیں پھر بھی جماعت کی نماز کے لیے مسجد میں حاضری نہیں دیتے، ان کے متعلق تہدیداً یہ بھی فرمایا گیا