اس آیت سے جماعت ہی کی نماز اس لیے مراد ہے کہ اس سے پہلے بالکل متصل {اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ} کی آیت آچکی ہے ،جس میں اقامتِ نماز کا حکم ہے، جس کی طرف امام رازی نے اشارہ بھی کیا ہے۔ اگر رکوع کے کئی معنی نہ ہوتے تو جماعت کی فرضیت کا ثبوت ہوتا، مگر چوں کہ متعدد معنی ہیں اس لیے وجوب، یا کم ازکم سنتِ مؤکدہ کا ثبوت تو بہرحال ہوگا۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں:
خلاصہ یہ ہے کہ پنج وقتہ جماعت ہر ہر فرد پر سنتِ مؤکدہ ہے، جو بغیر شرعی عذر جیسے: بیماری، سفر، بارش، آندھی، طوفان کے ترک نہیں کی جاسکتی ہے، اور تمام مسلمانوں پر فرضِ کفایہ ہے۔ اگر کل کے کل جماعت کے ترک پر اصرار کریں گے تو سب گناہ گار ہوں گے، کیوں کہ یہ سنت شعارِ دین ہے۔1
۲۔ {وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَاَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَۃٌ مِّنْہُمْ مَّعَکَ وَلْیَاْخُذُوْٓا اَسْلِحَتَہُمْ}۔2
اور آپ جب ان میں تشریف رکھتے ہوں، پھر آپ ان کو نماز پڑھانا چاہیں، تو چاہیے کہ ایک گروہ ان میں سے آپ کے ساتھ کھڑا ہو جائے اور اپنے ہتھیار وہ لوگ لے لیویں۔
اس آیت کے سلسلے میں صاحب ’’التعلیق الصبیح‘‘ لکھتے ہیں:
أمرہم بالجماعۃ یدل علی وجوبہا حال الأمنِ بالأولی۔ (۲/۳۴)
اللہ تعالیٰ کا حالتِ خوف میں جماعت کا حکم دینا دلیل ہے کہ حالتِ امن میں جماعت بدرجۂ اولیٰ واجب ہونگی۔
’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں ہے:
وما أحسن ما استدل بہ من ذہب إلی وجوب الجماعۃ من ہذہ الآیۃ الکریمۃ۔ (۱/۵۴۷)
اس آیتِ کریم سے جو لوگ جماعت کے وجوب کی طرف گئے ہیں، ان کا استدلال بہت ہی خوب ہے۔
۳۔ {وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَہُمْ}۔1
اور ہم لکھتے جاتے ہیں ان اعمال کو جو وہ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے قدم کے نشانوں کو بھی۔
أي آثار أقدامہم إلی المساجد۔ (التعلیق الصبیح: ۲/۳۴)
یعنی ان کے قدموں کے وہ نشان جو مسجد جانے میں ہوتے ہیں
علما نے ان کے علاوہ اور آیتوں سے جماعت کا وجوب ثابت کیا ہے، مگر میں نے انھی تین آیتوں پر اکتفا کیا، کہ یہ مطلب کے حصول کے لیے کافی ووافی ہے۔