اس سلسلے میں ان چیزوں کا بھی تذکرہ کرنا ہے جن کا مسجد میں کرنا جائز ہے، ان میں سے ایک تنازع بین المسلمین کا فیصلہ ہے، شریعت نے مسجد میں مسلمانوں کے باہمی نزاع کے فیصلہ کرنے کی اجازت دی ہے۔ اسی طرح اس کی بھی اجازت ہے کہ کوئی مسئلہ پوچھے تو اس کا جواب دیا جائے، صرف شرط یہ ہے کہ اس سے نمازیوں کا نقصان نہ ہو اور احترامِ مسجد کا پورا پورا لحاظ رہے۔ آں حضرت ﷺ نے اپنے زمانے میں مسجد میں فیصلہ فرمایا ہے، استفتا کا آپ نے جواب بھی دیا ہے، حتی کہ دینی یا وہ دنیوی امور جن کا تعلق مفادِ عامہ سے ہے، ان کے لیے مسجد میں مجلسِ شوریٰ بلائی ہے، اور اپنی مجلس میں برابر احکام بیان کیے ہیں۔ انھی امور کو سامنے رکھ کر فقہا نے لکھا ہے:
القضاء عبادۃ فیجوز إقامتہا في المسجد کالصلاۃ۔ (ہدایۃ)
قضا عبادت ہے، لہٰذا یہ مسجد میں جائز ہے جیسے نماز۔
’’مسلم شریف‘‘ کی یہ حدیث گزر چکی ہے کہ مسجد ذکر اللہ، نماز اور تلاوتِ قرآنِ پاک کے لیے ہے۔
طبرانی نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ رحمتِ عالم ﷺ ایک دن جمعہ کا خطبہ فرما رہے تھے کہ ایک شخص لوگوں کی گردن پھاندتا آیا اور کہنے لگا: یا حضرت! مجھ پر حد جاری فرمائیے۔ آپ ﷺ نے اطمینان سے بیٹھنے کا حکم فرمایا۔ وہ بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تیری کیا حد ہے؟‘‘ اس نے کہا: پرائی عورت سے رو سیاہی کی ہے۔ آپ نے یہ سن کر صحابۂ کرام ؓ کو حکم دیا: ’’لے چلو
اور کوڑے لگاؤ۔‘‘ آپ ﷺ کے بعد اس سلسلے میں خلفائے راشدین کا بھی یہی عمل رہا۔ ’’بخاری‘‘ میں ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے منبرِ رسول کے پاس لعان کرایا، اور بقولِ ابوبکر رازی حضرت عثمان غنی ؓ نے بھی مسجد میں مقدمات فیصل کیے ہیں۔ ان بزرگوں کے علاوہ ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے اپنے زمانے میں مسجد میں نزاع کا تصفیہ کیا ہے۔ سعد بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف سے بھی ثابت ہے کہ انھوں نے مسجد میں مقدمہ فیصل کیا ہے۔ حضرت شریح ؒ بھی مسجد میں فیصلے کرتے تھے۔ امام شعبی کا عمل بھی یہی تھا۔ یہ تمام واقعات مشہور ہیں، مگر کہیں انکار مذکور نہیں ہے، نہ کسی صحابی سے اور نہ کسی تابعی سے۔1
اس میں شک نہیں کہ مقدمات میں یمینِ غموس اور کذب بیانی کی بھی نوبت آتی ہے، مگر اس کی وجہ سے کوئی شرعی قباحت پیدا نہیں ہوتی۔ عہدِ نبوی میں لعان مسجد میں ثابت ہے اور اس میں فریقین میں سے ایک کا کاذب وحانث ہونا ضروری ہے۔ ہاں! فریقین میں کوئی ایسا شخص ہو جس کے لیے مسجد میں داخل ہونا جائز نہ ہو، مثلاً حائضہ عورت تو اس کا