حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
درحقیقت واپس کی گئی تھیں ، ان میں وہ صلاحیت نہ تھی، جو فیضِ نبوت سے مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے،اس دربار سے اسے ملتا ہے جو عاجزی سے آئے، اپنی ہستی مٹا کے آئے، اللہ پر بھروسہ اور کامل توکل علی اللہ سے آئے، یہ صفات صرف حلیمہ رضی اللہ عنہا میں تھیں اور ادھرحضرت عبدالمطلب اگرچہ بہت متمول تھے لیکن ان کی سخاوت، مہمانداری اور غریب نوازی کے اوصاف مال کو زیادہ دیر گھر میں رہنے نہ دیتے۔ ابھی محرم کے مہینے تک حجاج مکہ سے واپس اپنے گھروں کو گئے تھے، اللہ کے یہ مہمان جب مکہ آتے تو ہاشمی گھرانہ ان کی دعوتوں میں اپنا سب کچھ لٹا دیتا تھا، اس سال ابرہہ کے کعبۃ اللہ پر حملے کی وجہ سے حجاج کا رش بھی بڑھ گیا تھا یعنی نہ اس گھر میں مال جمع تھا جہاں آپﷺ پیدا ہوئے اور نہ اس گھر میں تھا جہاں سے حلیمہ رضی اللہ عنہا آئیں ، لیکن ان کو ابھی طلبِ صادق میں وہ درجہ حاصل نہ ہوا تھا جو نبی آخر الزمانﷺ کو آغوش میں لینے کا مستحق بناتا، اس لیے انہوں نے حضورﷺ کے گھر پہ دستک دی۔ جب معلوم ہوا کہ بچہ یتیم ہیتو سوال پیدا ہوا معاوضہ و حقِ خدمت کا کیا بنے گا؟ میں تو پہلے ہی غریب ہوں ، شاید اس کا حق بھی ادا نہ کر سکوں ، یہ سوچ کر مکے میں کوئی اور بچہ تلاش کرنے نکل گئیں ۔(۱) لیکن کوئی ان کو بچہ دینے پہ راضی نہ ہوا، کیا سب بچے اپنی دائیوں کے ساتھ جا چکے یا حلیمہ رضی اللہ عنہا کو کمزور اور مفلوک الحال سمجھ کر کسی نے بچہ نہ دیا۔ وجہ کوئی بھی ہو، وہ خود فرماتی ہیں کہ محمدﷺ کو گود میں لینے کی وجہ یہ تھی کہ مجھے کوئی بچہ ملا نہیں ۔ (۲)راز اس میں یہی تھا کہ ان کو یہ شرفِ عظیم تب ہی مل سکا، جبکہ ان کی ساری اُمیدیں غیر اللہ سے ہٹ گئیں اور اپنے خاوند کو کہا: ’’خدا کی قسم! میں ضرور اس یتیم کو لے کر جائوں گی، اُمید ہے اللہ اس نومولود کو ہمارے لیے خیر و برکت کا ذریعہ بنا دے۔‘‘(۳) اب وہ اس قابل ہوئیں کہ تاجدارِ نبوتﷺ کی خدمت کر کے اس لائق ہوں کہ حضرت محمدﷺ ان کو ’’اُمی‘‘ (میری ماں ) کہا کریں ۔ ----------------------- (۱) السیرۃ الحلبیہ: ۱/۱۳۱ (۲)(سیرۃ ابن ہشام: ۱/۱۶۲) (۳) عیون الاثر: ۱/۴۲