حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
جائے وہ بھی خوبصورت ہو۔ چنانچہ بچے کے دادا نے ایک فیصلہ کر لیا، ولادت کے ساتویں روز عبدالمطلب نے آپﷺ کا عقیقہ کیا اور تقریب میں تمام قریش کو دعوت دی اور ’’محمدﷺ‘‘ آپﷺ کا نام تجویز کیا۔ قریش نے کہا: اے ابو الحارث عبدالمطلب! آپ نے ایسا نام کیوں تجویز کیا جو آپ کے آبائو اجداد اور آپ کی قوم میں اب تک کسی نے نہیں رکھا؟ عبدالمطلب نے کہا: اَرَدْتُّ اَنْ یَحمَدَہ‘ اللّٰہ، فِیْ السَّمَاء وَیَحْمَدَہ‘ اھلُ الاَرْضِ فِی الْاَرْضِ ’’میں نے یہ نام اس لیے رکھا ہے کہ اللہ آسمان میں اور اللہ کی مخلوق زمین میں اس نومولود کی تعریف کرتی رہے۔‘‘(۱) نیک دل دادا کی تمنا پوری ہوئی، سیّدِ دو عالمﷺ جب جوان ہوئے، اظہار نبوت کیا، آپﷺ کو ماننے والے جانثار آپﷺ کا کلمہ پڑھنے لگے اور آپﷺ کی باتیں بہت غور سے سننے لگے تو ایک دن آپﷺ نے فرمایا: میرے اللہ نے میرے اوپر ایک آیت نازل کی ہے: اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰءکَتَہ‘ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیّ یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب: ۵۶) ’’بلاشبہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی ( علیہ السلام ) پر درود بھیجتے ہیں ، اے ایمان والو! تم بھی درود و سلام بھیجا کرو۔‘‘ آیت نازل ہوئی، دادا جی کی بات پوری ہو گئی، اب تا قیامت بلکہ قیامت کے بعد بھی آسمانوں اور زمین میں آپﷺ کی تعریف و توصیف ہوتی رہے گی۔ چنانچہ آج بھی جہاں اللہ کا نام لیا جاتا ہے وہاں اس کے حبیبﷺ یتیم ابی طالب، آمنہ کے لختِ جگر، دعائے ابراہیم علیہ السلام ، نویدِ مسیح علیہ السلام کا نامِ نامی اسمِِ گرامی ضرور لیا جاتا ہے۔ -------------------------------------------- (۱) زرقانی، شرح موطا، امام مالک و فتح الباری، باب مبعث النبیﷺ