حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
تعمیرکیا تاکہ لوگ مکہ نہ جائیں اور حج یہاں کریں ۔ لوگوں نے اسے تسلیم نہ کیا تو اس نے یہ تیاری بھی کر لی کہ اللہ کے گھر کو اس لیے مسمار کر دے کہ اس کا اپنا بنایا ہوا کعبہ تسلیم کیا جائے۔ وہ صنعاء سے براستہ خثعم طائف پہنچا، اس کے ساتھ ساٹھ ہزار فوجی تھے اور تیرہ اصحابِ فیل (ہاتھیوں کی فوج) انھوں نے حرمِ مکی پر درمیان محرم میں حملہ آوری کا مکمل اہتمام تو کر لیا، لیکن وہ یہ نہ جانتے تھے کعبہ کا حقیقی متولی اس گھر کے قریب بطنِ مادر میں سانسیں لے رہا ہے۔ اس کی موجودگی میں کوئی اسے فتح نہ کر سکے گا، مکہ سے تین کوس دور ’’المغمس‘‘ مقام پر اس نے مقدمۃ الجیش کو آگے بڑھایا، اس وقت تک بھی وہ نہ سمجھ سکا کہ وہ ناکام ہو سکتاہے۔ صدیوں پہلے اس عبادت خانے کو اس نیک روح (حضرت محمدﷺ) کے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر بنایا تھا اور اس کی تکمیل کے بعد دونوں پیغمبروں نے مل کر یہ دعا کی تھی: ’’اے ہمارے پروردگار! (یہاں کے مکینوں میں سے) ہی ایک رسول بھیج (تاکہ یہ لوگ اس رسولﷺ کی بات سمجھ بھی سکیں اور وہ رسول ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے، ان کے اخلاق سنوارے، ان کو کتاب کی تعلیم دے اور حکمت کی باتیں بتائے۔‘‘(۱) کوئی چشم بصیرت والا ابرہہ کے لشکر میں ہوتا تو ان کو یہ سمجھاتا: اے ابرہہ! اس گھر کے متولی ابھی صرف پچاس دن کے بعد آنے والے ہیں ،تم آنے والے مہمان کا گھر کیوں گرا رہے ہو؟ آسمانی کتابیں گویا ہیں کہ وہ آ چکے ہیں ، اب ان کے استقبال کے لیے اس گھر کو باقی رکھا جائے گا اور کوئی بھی اس کو گرانے میں کامیاب نہیں ہوگا، حضرت محمدﷺ آنے والے ہیں ، ان کی جوتیوں میں بیٹھنے والے اس درجے کو پہنچ جائیں گے کہ کعبہ کی تعلیمات سے ٹکرانے والے، جب یہ معلوم کر لیں گے کہ مدمقابل لشکر میں کوئی ایک شخص بھی ایسا ہے جس نے حضرت محمدﷺ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے تو وہ ہتھیار ڈال دیں گے اور مقابلے سے دست بردار ہو کر اپنا ملک ان کے حوالے کر دیں گے۔(۲) ------------------------ (۱) البقرہ: ۱۲۹ (۲) صحیح بخاری: ۳۶۴۹