حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
پیدا ہوئے تو بنو سعد کے صحرا میں جا ڈیرہ ڈالا۔ دو سال پورے ہوئے، مکہ کے لیے سفر فرمایا۔ یہاں چند دن قیام اور پھر وہی بنو سعد کا وہ سبزہ زار جسے خود جا کر گل و گلزار بنایا تھا۔ ہاتھ پائوں میں چلنے پھرنے اور دوڑنے کی حرارت پائی تو گھر بیٹھنا مردانہ شان کے خلاف سمجھا اور بکریوں کی دیکھ بھال کے لیے روزانہ سویرے گھر سے نکلتے اور شام ڈھلے حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کی کٹیا کو روشن کرتے۔ مسلسل نقل و حرکت کے مزید دو ڈھائی سال بھی بیت گئے اور مکہ کی راہ لی۔ یہاں عبدالمطلب کا بیسیوں افراد پر مشتمل گھرانہ، ہر ایک کی چاہت کہ حضرت محمدﷺ ایک دن بھی نظروں سے اوجھل نہ ہوں لیکن آخرت کے اس راہی نے تو ’’مسافروں ‘‘ کی ایک جماعت بنانی تھی اس لیے یہاں بھی نہ ٹھہرے، امی کے ساتھ اونٹنی پہ سوار ہوئے اور یثرب (مدینہ) کے لیے ہفتہ بھر کا سفر بے تکان کر ڈالا۔ یہاں ایک ماہ بھی آرام نہ کیا اور وادیٔ ابراہیم (مکّہ) کو چل دیے۔ راستہ میں دنیا کی سب سے بڑی دولت (ماں ) کو بھی اپنے سامنے ’’ اللہ حوالے‘‘ ہوتے دیکھا، اس غم نے بھی ان کے پائوں کو چلنے سے نہ روکا اور چار پانچ دن میں باقی سفر طے کیا۔ دادا کا غم دیکھا اور صرف بارہ سال کی عمر میں شام تک جانے کا ارادہ کر لیا۔ واپسی کو زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ یمن کے لیے کمربستہ دکھائی دیے۔ پھر جوانی غارِ حرا میں عبادت، جھگڑوں کے فیصلوں ، خدمتِ حجاج (انتظاماتِ حج) مہمانداری، تجارت کے تیرہ بازاروں میں جانے، حلف الفضول کے امن ایجنڈے کی تکمیل اور بیوائوں ، یتیموں کے کاموں میں زندگی کوچ در کوچ، سفر در سفر اور کوبکو گزری۔ اعلانِ نبوت ’’طلوعِ فجر تک‘‘ کی اس اشاریہ سفری کہانی کے بعد بھی حضورﷺ کی جو سوانح دیکھیں تو ہجرت در ہجرت ہی نظر آتی ہے۔ آپﷺ نے اسی مسافرانہ زندگی کی طرف سارے انسانوں کو ان الفاظ میں بلایا۔ کُنْ فی الدُّنْیَا کَانَّکَ غَرِیْبٌ اوْ عَابِرُ سَبِیْلِ(۱) ’’دنیا میں ایسے رہو جیسے مسافر یا پردیسی۔‘‘ بچپن سے جوانی تک جہد مسلسل نہ ہوتی تو آپﷺ کا یہ فرمان واعظ حجرہ نشیں کا مزین قول بن کے ہوا میں بکھر جاتا، پھر نہ کوئی حبشہ کی خاک چھانتا اور نہ بیت اللہ چھوڑ کر اس شہر (مدینہ) میں کون آتا جہاں کا بخار ہی بہت مشہور تھا۔(۲) ملاحظہ: باب نمبر ۷ مکمل ہوا۔ آپﷺ کی جسمانی صلاحیتوں ، اوصاف و عادات اور بچپن کے واقعات سے یہ سمجھنا آسان ہو گیا کہ جو کام بھی آپﷺ کرتے تھے۔ اس کے پیچھے ایک پورا نظام ہے جو آپﷺ کو آہستہ آہستہ اعلانِ نبوت کی طرف لے جا رہا ہے۔ باب نمبر ۸ میں اسے مزید کھول کر بیان کیا جائے گا۔ ----------------------- (۱)صحیح بخاری: ۶۴۱۶ (۲) الروض الانف ۵/۳۳