حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
حیا تو اللہ نے آپﷺ کی گھٹی میں رکھی تھی، جب پیدا ہوئے تو ختنہ ہو چکا تھا تاکہ اس کم سنی میں بھی آپﷺ کو کوئی بے پردہ نہ کرے۔(۱) اس نوعمری میں آپﷺ نے کیا خوبصورت جواب دیا کہ ’’ایسا کروں تو لوگ مجھے مجنوں کہنے لگیں گے۔‘‘ معلوم ہوا کہ اسی عمر میں آپﷺ اتنے عقل مند و باشعور ہو چکے تھے کہ عقل مندی اور بے وقوفی کے کاموں میں امتیاز کرنے لگے۔ یہ حدیث آپﷺ کی حس کامل کی دلیل ہے اور دوسری دلیل یہ ہے کہ آپﷺ سے پوچھا گیا: کیا آپﷺ نے شراب پی؟ فرمایا: ابھی مجھے کوئی کتاب ملی اور نہ ایمانی (احکام) ملے تھے اس کے باوجود میں (عقلِ سلیم سے شراب اور بت پرستی کو برا سمجھتا تھا اور ان کے) قریب نہ جاتا تھا ۔(۲) یہ ابتدا تھی آپﷺ کے حسنِ شعور کی اور جب جوان ہوئے تو لوگوں نے آپﷺ کو اپنا سردار تسلیم کرلیا۔(۳) علامہ رشید رضاؒ لکھتے ہیں : ابوطالب ایک دن حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے: جانتے ہو تمہارے بھتیجے محمد(ﷺ) نے کیا عجیب کام دکھایا؟ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے استفسار پر فرمایا: میں اسے ساتھ رکھتا ہوں اپنے سے جدا نہیں کرتا، میں نے اسے کہا: بیٹا!یہ کپڑے اُتار دو اور سو جائو! میں نے دیکھا کہ اسے میری بات پسند نہیں آئی، مجھے کہنے لگا: چچا جی! اپنا منہ دوسری طرف کر لیں ، میں نے منہ دوسری طرف کیا تو وہ بستر میں چلا گیا، پھر میں اس بستر میں گیا تو حیران ہو گیا کہ اس کے اور میرے درمیان انتہائی نرم اور خوشبودار کپڑا ہے، میں نے اسے دیکھنا چاہا تو میں محمدﷺ کا جسم نہیں دیکھ سکا۔ بعض دفعہ میرے بستر سے غائب ہو جاتا ہے، میں آواز دیتا ہوں تو آواز آتی ہے: اے چچا! میں یہاں ہوں ۔ جب رات کا ایک بڑا حصہ گزر جاتا ہے تو اس سے عجیب باتیں سنتا ہوں ، کھانا کھائے تو بِسم اللہ پڑھے۔ کھا چکے تو الحمدُللہ کہے، بچوں کے ساتھ (گلیوں ) --------------------------------- (۱) المعجم الکبیر للطبرانی: ۳/۱،۱۴ (۲) السیرۃ الحلبیہ: ۱/۳۲۱ شرح الرزقانی ۹/۵۷ (۳) المواھب اللدنیہ: ۲/۶۱۰، امتاع الاسماع: ۲/۳۴۷