حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
ایک دن اپنے صحابہ رحمہم اللہ کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا: ہم جب (اماں حلیمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ) بکریاں چرانے جاتے تو کھانا ساتھ نہیں لے جاتے تھے۔ ایک دن میرا بھائی (دوپہر کو بھوک لگنے پر حسبِ معمول) کھانا لینے گیا تو میں نے بکریوں کی نگرانی کی، ایک روایت ہے کہ میں نے بھائی سے کہا: جائو امی سے کھانا لے آئو! میں یہاں بکریوں کا خیال رکھتا ہوں ۔(۱) ایک معمولی واقعہ بھی آپﷺ کے دل و دماغ سے محو نہیں ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی دل پہ قرآن کریم کا نزول فرمانا تھا۔ ابتدا وحی میں آپﷺ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے تاکہ وحی بھول نہ جائے اور آپﷺ فوراً ایک بار سننے سے ہی یاد کر لیتے تھے۔ پھر اللہ نے حکم دیا آپﷺ اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کریں ۔ اس قرآن کو آپﷺ کے دل میں جمع کرنا اور اس کی قرأت کروانا ہمارا کام ہے۔ آپﷺ کے حافظے اور بے نظیر، حساس طبیعت کا اندازہ اس وقت بھی ہوا جب ابوطالب کی زوجہ فوت ہوئیں ، تو حضورﷺ ان کی چارپائی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے: اے میری ماں ! (مجھے یاد ہے) آپ نے میری ماں کا کردار ادا کیا (مجھے گھر کے معاشی حالات بھی یاد ہیں ) آپ خود بھوکی رہ لیتی تھیں ، مجھے کھانا لا دیتی تھیں ، (آپ کو لباس کی ضرورت ہوتی تھی اتنا کپڑا نہیں ہوتا تھا کہ آپ خود بھی پہنیں اور مجھے بھی پہنائیں تو آپ خود، پرانے اور پھٹے لباس میں گزارہ کر لیتی تھیں اور) مجھے نئے کپڑے پہنایا کرتی تھیں (اور کوئی اچھا کھانا ہوتا تو) مجھے وہ اچھا کھانا کھلا دیتی تھیں ۔ (آپ کو مجھ سے کوئی لالچ نہ تھا، آپ تو میری) ساری خدمات اللہ کو خوش کرنے کے لیے انجام دیتیں (تاکہ) آخرت میں اس خدمت و حسنِ سلوک کا بدلہ مل جائے۔(۲) حضرت فاطمہ بنتِ اسد رضی اللہ عنہا مدینہ میں فوت ہوئیں ۔ یعنی نو سال کی عمر میں حضورﷺ نے جو دیکھا وہ آپﷺ کو خوب یاد تھا۔ واقعی حضور سید الکائناتﷺ کو اللہ ----------------------------- (۱) الصحیح من احادیث السیرۃ النبویۃ: ۱/۱۲ (۲) سبل الہدیٰ: ۱۱/۲۸۷