حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
مجھے لے کر (سواری سے) اُتری تھی اور میں نے یہیں بنی عدی بن نجار کے پانی میں تیرنا سیکھا۔ مجھے وہ باتیں خوب یاد ہیں ، یہاں مجھے یہودیوں نے بڑے غور سے دیکھا اور کہا تھا: یہ بچہ اس اُمت کا نبی(علیہ السلام) ہوگا۔(۱) اور یہیں اس (سامنے والے) مکان میں میرے والد (حضرت عبد اللہ ) کی قبر ہے۔(۲) ادھر اونچے مکان پر ایک پرندہ بیٹھتا اور ہم سب بچے اسے اُڑا دیتے تھے۔ میرے ماموؤں کے بچے بھی میرے ساتھ ہوتے تھے۔(۳) اور یہیں انیسہ نام کی لڑکی کے ساتھ میں کھیلا کرتا۔(۴) دو امور مذکورہ بالا تحریر میں اہم ہیں : (۱) آپﷺ اپنے بچپن میں بچوں کے ساتھ کھیلا بھی کرتے تھے۔ (۲) آپﷺ تیرنا بھی جانتے تھے۔ سن شعور سے ہی سواری کے واقعات ملتے ہیں ، بلوغت کے بعد اور پہلے بنو سعد، شام اور یمن کے اسفار اونٹ پر فرمائے، جناب عبدالمطلب نے ایک دن (جبکہ آپﷺ اُونٹ کی تلاش میں بھیجے گئے اور جلد واپس نہ آ سکے تو) کچھ اشعار پڑھے تھے ان میں وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں : اے اللہ ! میرے شہ سوار کو واپس لوٹا دے۔(۵) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آٹھ سال عمر سے پہلے آپﷺ اُونٹ پر کسی کی مدد کے بغیر سواری کر لیتے تھے۔ اس لیے اُونٹ لینے کی خاطر آپﷺ کو اکیلے ہی بھیجا گیا تھا اور جب آپﷺ (اپنے چچا)جناب زبیر بن عبدالمطلب کے ساتھ یمن تشریف لے گئے تو اس وقت بھی آپﷺ اپنے علیحدہ اُونٹ پر سوار تھے۔(۶) ان شواہد کے بعد اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ ابتدائی عمر میں آپﷺ پورے اعتماد کے ساتھ سواری فرما لیا کرتے تھے۔ -------------------------- (۱) شرح الزرقانی: ۱/۳۰۹ (۲) المختصر الکبیر: ۱/۱۰ (۳) سبل الہدی: ۲/۱۲۰ۃ (۴)الوفاء: ۱/۷۰ (۵)سبل الہدیٰ: ۲/۱۳۰ (۶) الوفا: ۱/۵۳، سبل الہدیٰ: ۲/۱۳۸