حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
نبی رحمتﷺ کی پاکیزہ عادات، اخلاق اور خصائل کی بنا پر آپﷺ کی شہرت دن بدن عروج پر تھی۔ بحیراء راہب نے جس طرح آپﷺ کا استقبال کیا اور کچھ اہلِ کتاب نوجوانوں نے نبی اکرمﷺ کی شام تشریف آوری پر آپﷺ سے ملنے کی خواہش کی۔ اس قسم کے واقعات سے یہ سمجھنا بجا ہے کہ تمام معبد خانوں ، مدارس اور خانقاہوں کے اندر ان دنوں میں نبی محترمﷺ کی شام کے علاقے میں آمد کا انتظار تھا، جب بحیرا کے مشورے سے آپﷺ واپس مکہ میں تشریف لے آئے تو اہلِ شام اور وہاں کے علماء میں نبی رحمتﷺ کی بعثت کی خبر مزید پھیل گئی ہوگی۔ اب تک مدینہ، بنو سعد، بازار ذی المجنہ، ذی المجاز، بیت المقدس اور حبشہ میں نبی اکرمﷺ کے وجود مقدس کی خبر عام ہو چکی تھی۔ مکہ کے جس تجارتی قافلے کے ساتھ سیّدنا محمد کریمﷺ تھے وہ رئوساء و امراء قبائل اور جہاں دیدہ تاجروں پر مشتمل تھا، انہوں نے شام میں حضورﷺ کی عزت کا جب یہ منظر دیکھا، تو سمجھ گئے کہ محمدﷺ ہمارے رسوم و رواج سے دور کیوں رہتے ہیں ؟ یہ بیت اللہ کے کاموں میں دل چسپی کیوں رکھتے ہیں اور آج پتہ چلا کہ کسی دن بھی یہ ہمارے بتوں کو تسلیم نہ کریں گے۔ بلکہ کوشش کریں گے کہ دنیا ان کی بات مانے۔ حضورﷺ کو چچا ابو طالب نے گھر واپس بھیج دیا یا خود لے آئے لیکن آپﷺ اہل شام اور اپنے تجارتی ہم سفروں کو گہری سوچوں میں مبتلاء کر آئے کہ محمدﷺ کسی اور جہان کے آدمی ہیں یہ معمولی نہیں ہیں ، ہمارے اور ان کے رستے جدا ہیں ۔ وہ سب کو اپنے رستے پہ لانے کی کوشش کریں گے اور کسی سے متاثر نہ ہوں گے۔ اور بحیرا جیسے صلحاء کو خوشی ہوئی کہ جس رہبر کی انہیں تلاش تھی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جس انسانِ کامل، ہادی اکملﷺ کی خبر دی تھی، ان کی خوش نصیبی کہ انہوں نے ان کے روئے انور کو دیکھا اور بعض نے تو کہا: کاش ہم اس وقت تک زندہ رہیں جب تک یہ جوان ہوں اور فاران کی چوٹی سے صدائے لَا اِلٰہَ بلند ہو۔(۱) ----------------------------- (۱) زاد المعاد: ۳/۱۹، الدرر فی اختصار المغازی والسیر: ۱/۳۲