حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
کرتے ہیں ، ساتھ رکھتے ہیں ، کھانے اور سونے کے اوقات میں اپنے پہلو میں رکھتے ہیں ۔ ان تمام امور کا انہوں نے مکمل لحاظ رکھا۔ وہ والدہ کی طرف سے آپﷺ کے مرحوم والد عبد اللہ کے حقیقی بھائی تھے، اس لیے عبدالمطلب نے حضورﷺ کو ان کی تحویل میں دے دیا: اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاوٰ کا بھرپور نظارہ نوخیز حضرت محمدﷺ نے ابوطالب کے گھر میں ہی دیکھا، حالات نے اب تک یتیمی و بے کسی کا احساس دلانے کے لیے حضورﷺ کے نازک دل کو پے بہ پے ٹھیس لگائی تھی، اس نے اب بہترین درماں کا سامان فراہم کر دیا،حضرت آپ ﷺ نے آنے والی انسانیت کو اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً ’’تنگی کے ساتھ آسانی‘‘ کا جو درس دینا تھا، عملی طور پر آپﷺ ان حالات سے گزر رہے تھے۔ اب ابوطالب پختہ عمر کے تھے، ان کی شادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اسد سے ہو چکی تھی، لیکن ان کا صرف ایک ہی کم سن بچہ طالب تھا، دونوں میاں بیوی نے بھتیجے کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور حقیقی بیٹے کی طرح پرورش کرنے لگے، حضورﷺ کو ماں کی ممتا ہی نہیں ، باپ کا پیار بھی مل گیا اور کھیلنے کے لیے ایک چھوٹا سا بھائی۔ جناب ابوطالب کے گھر جہاں ایک عظیم خاتون سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت اسد کے پیار و محبت میں آپﷺ نے بہت یادگار دن گزارے، وہاں طالب، عقیل رضی اللہ عنہ ، جعفر رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اُمّ ہانی رضی اللہ عنہا (ان کا نام فاختہ، ہند، یا فاطمہ بھی بتایا جاتا ہے) جمامہ اور ریطہ ان سب بچوں کی دلی چاہت بھی آپﷺ کو ملی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت اسد نے نہایت خلوص اور دل سوزی کے ساتھ حضورﷺ کی خدمت کی، ظہورِ اسلام اور قبولِ ایمان کے بعد ان کی وفات ہوئی تو حضورﷺ ان کی میت کے سرہانے بیٹھے اور فرمایا: رَحمِکَ اللّٰہ یَا اُمِیّ، کنتِ اُمّی بَعْدَ اُمِّی، تَجُوعِیْنَ تُشْبِعِیْنَنِیْ وَتعرَینَ وَتَکْسِیْنِیْ(۱) -------------------------------- (۱) مجمع الزوائد، حدیث: ۱۵۳۹۹، المعجم الاوسط: ۱۸۹