حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
وقت حضورﷺ کے یہ بارہ چچے اپنے والد گرامی کی خدمت میں مسند کے تین طرف بیٹھے ہوتے تھے اور مسجد الحرام میں عبدالمطلب کے خدام و دوست احباب و اہل خاندان )اس منظر کو دیکھ کر محظوظ ہوتے تھے۔(۱) جب ان کا لائق، ذہین، فطین اور سب سے حسین بھتیجا گم ہوتا تو اپنے محترم والد کے ساتھ یہ سب بھی تلاش کے لیے نکلتے۔ ان سب کو والد گرامی قدر نے یقین دلا رکھا تھا کہ ان کا یہ بھتیجا نبی اور بادشاہ ہوگا۔(۲) الغرض: حضورﷺ جملہ اہلِ خاندان کی آنکھوں کا تارا تھے۔ ان اعزہ میں سے بعض حضرات بڑی بڑی دنیاوی و اخروی فرحتوں سے سرفراز ہوئے۔ آپﷺ کی یہ پھوپھیاں بھی جانثار ہوتی تھیں : حضرت صفیہ اُمّ الزبیر رضی اللہ عنہا ، عاتکہ، برہ، اَروَی، اُمیمہ اُمّ حکیم البیضاء، ان میں سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا مسلمان ہوئیں ، حضرت عاتکہؓ اور اروی رضی اللہ عنہما کے اسلام کا ذکر بھی بعض اہل سیر نے ذمہ داری کے ساتھ کیا ہے۔(۳) جب ایک عید کو انہوں نے حضورﷺ کو غائب پایا تو سب پریشان ہوئیں ، جب آپﷺ مل گئے تو سب کی سب آنحضورﷺ سے پیار کرنے لگیں ۔(۴) اپنی وفات سے پہلے پورے خاندان کو عبدالمطلب نے وصیت کی تو انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی ساری اولاد (مذکورہ بارہ بیٹوں اور بیٹیوں ) کو جمع کیا اور وہی کہا جو وہ اپنی حیاتِ مبارکہ کے ایام میں بیٹوں اور بیٹیوں کو مسلسل نصیحت کرتے رہے کہ حضرت محمدﷺ کی حفاظت کا خیال رکھو۔(۵) اس وصیت اور نبی محترم( علیہ السلام ) کی اپنی شخصیت کی بنا پر پھوپھیوں اور چچائوں کا یہ ------------------------------ (۱) شرح الزرقانی : ۱/۳۵۲، سیرۃ ابن کثیر: ۱/۲۴۰، جامع الاصول ۱۲/ ۱۰۹ ذکر اعمامہٖ (۲) الاکتفاء: ۱/۱۰۴، الوفاء: ۱/۷۵ (۳)زاد المعاد: ۱/۱۰۲ (۴) امتاع الاسماع: ۲/۳۴۳ (۵) السیرۃ الحلبیہ: ۱/۱۶۶