مکاتبت سلیمان |
|
خلافت سے سرفرازی اگست ۱۹۳۸ء میں سید سلیمان ندوی نے راہِ سلوک میں قدم رکھا اور اب اکتوبر ۱۹۴۲ء آپہنچا تھا، مسافر نے عشق ومعرفت کی اتنی منزلیں طے کر لی تھیں کہ اب وہ حکیم الامت کی نگاہ میں راستہ کے سارے نشیب وفرازا ورپیچ وخم سے پوری طرح باخبر اور ناواقفوں کی راہبری کے لئے ہر طرح لائق اعتبار تھا۔ حضرت حکیم الامت نے اپنے قلبی داعیہ کی مزید تشفی کی خاطر استخارہ فرمایا، استخارہ سے تائید وتقویت پائی پھر سید صاحب کے نام ایک مکتوب لکھا جس کا عنوان تھا، ’’ استشارہ بعد از استخارہ کہ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کو خلافت دیدوں میں نے اس سلسلہ میں استخارہ بھی کر لیا ہے اب آپ کا کیا مشورہ ہے ۔‘‘ حضرت سید صاحب فرماتے تھے، کہ چونکہ دو تین ہی روز میں تھانہ بھون کی حاضری کا قصد تھا اس لئے میں نے اس گرامی نامہ کا جواب نہیں دیا، اور جب حاضر خدمت ہوا تو خاموش ہی رہا، ایک دن حضرت والا کی طرف سے ایک پرچہ ملا کہ : ’’آپ نے میرے استشارہ کا جواب نہیں دیا ‘‘ : اس اصرار پر میں نے جواباً عرض کیا کہ: ’’ حضرت والا کا مکتوب گرامی پڑھ کر قدموں تلے سے زمین نکل گئی، میں کہاں اوریہ ذمہ داری کہاں ‘‘ حضرت حکیم الامت اپنے مریدوں کو ہر مرحلہ پر آزماتے اور پرکھتے رہتے تھے، چنانچہ جب سید صاحب کا وہ جواب پہنچا تو حضرت حکیم الامت بے حد مسرور ہوئے اور حاضرین سے فرمایا کہ: ’’الحمد للہ وہی جواب آیا جس کی توقع تھی،‘‘ بس اس کے بعد سید صاحب کو ۲۲؍