مکاتبت سلیمان |
|
فصل لوگوں کے اعتراضات اور حضرت سید صاحبؒ کے جوابات مولانا ابوالکلام آزؒاد کا تعجب سے استفسا راورسید صاحبؒ کا جواب تذکرہ سلیمان کے مصنف تحریر فرماتے ہیں : خود حضرت والاؒ نے سنایا کہ برسوں بعد جب مولانا ابو الکلام بھارت کے وزیر تعلیم بن چکے تھے دہلی میں کسی دعوت میں ان سے ملاقات ہوگئی تو انہوں نے بڑے تعجب سے پوچھا: ’’مولانا میں نے سنا ہے کہ آپ مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مرید ہوچکے ہیں اور ان کے خلیفہ مجاز بھی ہیں ؟۔‘‘ حضرت والاؒ نے دونوں باتوں کا اعتراف فرمایا تو پھر مولانا نے سوال کیا ، آخر تصوف میں ہوتاکیا ہے؟‘‘ حضرت والا نے جواب دیا کہ : ’’یہ بات تو کسی تفصیلی صحبت میں پوچھنے کی ہے، اس مختصر وقت میں کیا بتائوں ۔‘‘ بات ختم ہوگئی اور پھر کسی ملاقات کی نوبت نہیں آئی، سوال تشنہ جواب ہی رہ گیا، مگر اب سائل ومسئول دونوں وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں بغیر سوال کے ہر حقیقت خود بخود شاہد ہے۔! غرض اس واقعہ کو سناکر حضرت والا ؒ نے فرمایا کہ یہ وہی مولانا ابو الکلام ہیں جن کے والد ماجد کلکتہ کے مشہور پیر تھے اور ان کے وصال پر لوگوں نے ان کو ان کا گدی نشین بھی کیا تھا، اگر وہاں کچھ پایا ہوتا تو آج یہ سوال کیوں کرتے، رسم ورواج نے حقیقت گم کردی اوراس رسمی پیری مریدی کو دیکھ کر لوگ حقیقت تصوف کے، جس کا صحیح عنوان تقوی واحسان ہے منکر ہوگئے۔! ۱؎ ------------------------------ ۱؎ تذکرۂ سلیمان ص:۱۶۹ ۔