مکاتبت سلیمان |
|
تھانہ بھون سے لکھنؤ واپسی پر ندوۃ العلماء میں اصلاحی مجالس جناب سید حسین صاحب(کمشنر لکھنؤ) تحریر فرماتے ہیں : تھانہ بھون میں دس بارہ روز قیام کے بعد جب لکھنؤ واپسی ہوئی تو مجھے بھی ان کے پروگرام کی اطلاع ہوئی، رخصت پر تو تھاہی اپنے نجی کام سے لکھنؤ گیا اور بعد فجر ندوۃ العلماء کے مہمان خانہ پہنچا وہاں قبلہ کو موجود پایا، آپ کے حالات وکیفیات کو یہ ناچیز کیا سمجھ سکتا ، لیکن اتنا اندازہ ضرور ہوا کہ حضرت بے حد مسرور وشاداں ہیں ، دار العلوم کے اساتذہ ، طلبہ اور دیگر حضرات مہمان خانہ میں حضرت کے گرد جمع تھے، اور آپ اپنے مخصوص انداز میں گفتگو فرمارہے تھے، چائے آئی میں بھی شریک ہوا، چائے کے بعد مخصوص حضرات وہاں رہ گئے تھے جن میں زیادہ دار العلوم ہی کے اساتذہ اور طالب علم تھے، اس مجلس میں قبلہ نے اپنی غزل مؤرخہ ۲؍ نومبر جو اوپر درج ہوچکی ہے لوگوں کو سنائی یہ مجلس تقریباً دس گیارہ بجے ختم ہوئی، کھانا کھایا گیا قدرے قیلولہ کے بعد نمازِ ظہر مسجد دار العلوم ندوۃ العلماء میں جماعت کے ساتھ ہوئی، اس کے بعد پھر مہمان خانہ میں مجلس ہوئی، اس مجلس میں بھی کچھ غزلیں سنائیں ، حاضرین میں سے چند حضرات کو میں نے علیحدہ کہتے ہوئے سنا کہ سید صاحب قبلہ میں غیر معمولی تغیر ہے، یہ باتیں ان میں نہ کبھی دیکھی تھیں اور نہ سنی تھیں ، اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ان کو کبھی اس طرح شعر پڑھتے نہیں سنا تھا، اس لئے بہت متعجب تھے، دو یا تین دن دار العلوم میں قیام رہا، اس درمیان میں برابر اس قسم کی مجلس ہوتی رہی، پھر لکھنؤ سے قبلہ کے ساتھ میں بھی ہم سفر ہوا ریل میں یہ غزل ارقام فرمائی: ہر بات میں جس کی ہے کیفیت مستانہ آباد رہے یا رب تا حشر وہ میخانہ چھائی ہے یہاں مستی ہر ایک نمازی پر حیرت ہے یہ گھر اے دل مسجد ہے کہ میخانہ