مکاتبت سلیمان |
حضرت تھانویؒ سے اپنے تعلق کا ذکر فرماتے تو آواز بھرا جاتی اور آنکھیں ڈبڈبا آتیں ، بس ایک آدھ جملہ فرما کر خاموش ہوجاتے تھے۔ غرض اس سانحہ کے فوراً بعد حضرت والاؒ نے چند اشعار درد وکرب سے مجبور ہوکر کہے، مگر چونکہ خود عارف تھے اور مسند ارشاد پر فائز اس لئے جذبات کا سیلاب حصار شرع کو چھو بھی نہ سکا اور آہ وبکا میں بھی تلقین وصبر کی شان پیدا ہوگئی۔ ۱؎رحلتِ شیخ پر رنج وغم میں ڈوبے ہوئے چند اشعار داغ فراق یار مٹایا نہ جائے گا اب دل کایہ چراغ بجھایا نہ جائے گا حرفِ دمِ وداع خدا کے سپرد ہو تا آخر حیات بھلایا نہ جائے گا اے دل خموش صبر ورضا کا مقام ہے نقش دوام فیض مٹایا نہ جائے گا پیر مغاں نہیں ہے مگر میکدہ تو ہے جام وسبو یہاں سے ہٹایا نہ جائے گا یوں ہی بچھا رہے گا یہاں خوانِ فیض عام جب تک ہیں مہمان بڑھایا نہ جائے گا چاہا خدا نے تو تری محفل کا ہر چراغ یونہی جلا کرے گا، بجھایا نہ جائے گا ۲ ------------------------------ ۱؎ تذکرۂ سلیمان، ص:۱۸۰۔ ۲؎ بزم اشرف کے چراغ، ص:۸۲۔