مکاتبت سلیمان |
|
وحدۃ الوجود کی حقیقت حضرت سید صاحب مولانا مسعودعالم ندوی کے نام مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں : وحدۃ الوجود کے باب میں آپ نے کئی دفعہ پوچھا ۔ وحدۃ الوجود کی کئی تشریحات ہیں ، اور ان کے اختلاف معنی کی بنا ء پر حکم بدل جاتا ہے۔ انہی میں سے ایک وہ ہے جس کو جاہل صوفیہ مانتے ہیں ، جس کا حاصل یہ ہے کہ خالق ومخلوق میں فرق اعتباری رہ جائے ، بلکہ ہر مخلوق کو دعوائے خالقی ہوجائے ۔ سویہ تمام تر کفرہے اور اس کا ماخذ نیو افلاطینت معلوم ہوتی ہے، اور ہندوؤں کا فلسفہ بھی اسی قبیل کا ہے۔ ہندوستان میں یہ مسئلہ مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کی روایت کے مطابق آٹھویں صدی میں آیا ہے ورنہ حضرات چشت کے کلام میں حضرت سلطان ہند خواجہ معین الدین سنجری سے لے کر حضرت سلطان الاولیاء نظام الدین ؒ کے ملفوظات میں اس کا ذکر یاد نہیں آیا ، مجدد الف ثانی، مولانا شاہ ولی اللہ صاحب ، مولانا اسمٰعیل شہید وغیرہ وحدۃ الوجود یا وحدۃ شہود کی جو تشریح کرتے ہیں اس کا مقصد مسئلہ قیومیت کی تفصیل ہے ۔ أنت قیوم السمٰوٰت والأرض ومن فیہن حدیث صحیح میں وارد ہے اور اس کی تشریح برمذاق وحدۃ الوجود یہ ہے کہ ساری مخلوقات اپنے وجود وبقا میں ہر آن اللہ تعالیٰ کی محتاج ہیں ، جس طرح وہ اپنے خلق میں محتاج تھیں أنتم الفقراء سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری حقیقت فقر محض ہے اور اللہ ہوالغنی سے ظاہر ہے کہ وہی غنی ہے ، فقر کے دوسرے معنی عدم کے ہیں ہماری حقیقت عدم ہے جس میں جود یا کسی صفت کی نیرنگی اسی ذات غنی کی صفات کے ظلال ہیں ۔ ظل کی حقیقت عدم ہی ہے عدمِ نور کا نام ظل ہے ، تاہم کسی ظل کا وجود اصل کے بغیر نہیں ہوتا اس لئے ظل کا وجود اپنی ذات میں ہم معنی عدم ہے ، لیکن اصل کے پرتو سے وجود کا ایک وہمی نقش پا لیتا ہے ، یہ ان حضرات کا وحدۃ الوجود ہے ، گو کہ ہمارے نزدیک