مکاتبت سلیمان |
|
چوتھا مضمون حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی وفات پر علامہ سید سلیمان ندویؒ کا مضمون ’’موت العالِم موت العالَم ‘‘ محفل دوشیں کا وہ چراغ سحر جو کئی سال سے ضعف و مرض کے جھونکوں سے بجھ بجھ کر سنبھل جاتاتھا،بالآخر ۸۲؍سال ۳؍ ماہ ۱۰؍روز جل کر ۱۵؍رجب ۱۳۶۲ھ کی شب کو ہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔ داغ فراق صحبت ِ شب کی جلی ہوئی اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے یعنی حکیم الامت ،مجدد طریقت، شیخ الکل حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ للہ علیہ نے مرض ضعف و اسہال میں کئی ماہ علیل رہ کر ۱۹؍ اور۲۰جولائی کی درمیانی شب کو ۱۰؍ بجے نمازعشاء کے وقت اس دارِ فانی کو الوداع کہااوراپنے لاکھوں معتقدوں اورمریدوں اور مستفیدوں کو غمگین و مہجور چھوڑا،اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَاب اس دور کا بالکلیہ خاتمہ ہوگیا،جو حضرت شاہ امداد اللہ صاحب مہاجر مکی ،مولانا یعقوب صاحب نانوتوی ،مولانا قاسم صاحب نانوتوی،مولانا شیخ محمد صاحب تھانویؒ کی یاد گار تھا اور جس کی ذات میں حضرات چشت اور حضرت مجددالف ثانی اورحضرت سید احمد بریلوی کی نسبتیں یکجا تھیں ،جس کا سینہ چشتی ذوق وعشق اور مجددی سکون و محبت کامجمع البحرین تھا