مکاتبت سلیمان |
|
محبین ومعتقدین سے حضرت سید صاحبؒ کے چند مخلصانہ کلمات ’’آپ اپنی محبت سے مجھ کو سب کچھ سمجھتے ہیں لیکن من آنم کہ من دانم، علماء پر فرائض کا بار عام مسلمانوں سے زیادہ ہے، اگر وہ درست نہ ہوں تو ان پر عذاب دوسروں سے زیادہ ہے، معاملہ دماغ کا نہیں ، قلب سلیم اور قلم مصیب کا ہے، بفس کا نہیں روح کا ہے، میری اتنی زندگی اور بندھنوں میں گذری ، اب اس زندگی کے لئے بھی کچھ کرنا چاہئے جو باقی ہے، علم وقوم کی خدمت بہت ہوچکی ہے، اب اپنے نفس کی خدمت بھی لازم ہے، ابھی منزل بہت دور ہے، صرف تسبیح ومراقبہ سے کچھ نہیں ملتا، جب تک دل کا تعلق دل والے سے نہ ہو، ہم تو بندوں کی ناراضی اور رضا مندی میں گرفتار ہیں مالک کی رضا مندی اورنا رضا مندی کی کس کو فکر ہے ، دعا کیجئے، کہ اللہ تعالی مجھ کو صحیح راستہ پر چلائے۔‘‘۱؎مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کا ارشاد مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ارشاد فرماتے ہیں : ’’مجھے یاد ہے کہ حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ نے جب حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے رجوع کیا تو ان کے بہت سے غالی معتقدین کو ناگوار ہوا، اور سید صاحب سے احتجاج کیا کہ ہماری جماعت کی ایک طرح کی سبکی ہوئی کہ ہم نے آپ کو اپنا بڑا بنایا تھا، گویا آپ شیخ الکل تھے، اور ہر چیز میں آپ امام کا درجہ رکھتے تھے، اور آپ نے دوسرے کا دامن پکڑ لیا، تو اس سے ہماری خفت ہوئی اس پر ایک دن سید صاحبؒ نے فرمایا کہ یہ عجیب لوگ ہیں ایک طرف تو میرے معتقد بنتے ہیں دوسری طرف مجھ ہی پر اعتماد نہیں کرتے یعنی میں اپنا فائدہ سمجھ کر وہاں گیا تو ان کو اس سے اختلاف ہے، گویا میرے ------------------------------ ۱؎ حیات سلیمان ص: ۶۸۴ تذکرہ سلیمان ص۱۶۸۔