مکاتبت سلیمان |
|
شناسی کے جوہر کو اور چمکادیا ، اور اس خلا کو پر کردیا جسے وہ عرصے سے محسوس کررہے تھے ۔۱؎ مجلس انتظامی کی اس تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ سے بیعت وتعلق سے بھی اس دینی رجحان کو تقویت ملی جو ایک طویل عرصے تک دارالعلوم کے معتمد تعلیم رہے ۔ ۲؎حضرت تھانویؒ سے تعلق قائم ہونے کے بعد سید صاحب کے چند اہم عظیم الشان کارنامے تاریخ ندوہ کے مصنف تحریر فرماتے ہیں : یوں تو سید صاحب کی پوری زندگی واقعات سے بھرپور اور عظیم الشان کاموں کی حامل ہے ،مگر ان کی زندگی کے آخری دس سا ل اس کا بہترین نمونہ ہیں ٭ جن میں ان کی زندگی بظاہرعدم استحکام کا شکاررہی۔۔۔۔۔۔مگر اسلام کی محبت اور مسلمانوں کی ہمدردی نے انہیں برابر کلمۂ حق کہنے اور انہیں نیک مشورے دینے پر مجبور کیا، اور وہ دمِ واپسیں تک دین وملت کی خیر خواہی وخیراندیشی میں لگے رہے ۔ اس عرصے میں انہوں نے اسلامی مدارس اور جامعات کو نئے حالات وحادثات کے مطابق سرگرم عمل ہونے اور اپنے اندر انقلابی تبدیلیاں پیدا کرنے کی دعوت دی جنکے ذریعے وہ عصری تقاضوں کو پورا کرسکیں ، اس سلسلے میں جامعہ دارالسلام عمر آباد ، پشاور ، ------------------------------ ۱؎ تاریح ندوۃ العلماء ص ۴۸۰ ج۲ ۲؎ تاریخ ندوۃ العلماء ج ۲ ص ۴۰۵ ٭ حضرت سید صاحب ؒ کی حضرت تھانویؒ سے پہلی ملاقات ۱۹۳۵ء میں ہوئی اور اگست ۱۹۳۸ء میں حضرت تھانویؒ سے بیعت ہوئے اور ۱۹۴۲ء میں خلافت سے سرفراز ہوئے اور ۲۲نومبر ۱۹۵۳ء میں وفات ہوئی ، گویا یوں کہنا چاہئے حضرت تھانویؒ سے تعلق بیعت اور خلافت کے بعد کا زمانہ ہی سید صاحب ؒ کے اہم کارناموں کا زمانہ اور زندگی کا بہترین نمونہ ہے۔