مکاتبت سلیمان |
|
آئندہ کے خطرہ کو زبان پرلاتے تھے کہ دوسروں کے بے صبری نہ ہو،مگر بات بات سے سفر کی آمادگی ظاہرہوتی تھی ،گو ان کی زندگی اور طرزِ زندگی جس صفائی ،پاکیزگی اورباقاعدگی کی عادی تھی،اس کا اثر یہ تھاکہ وقت اخیر کے لئے کوئی کام اٹھا نہیں رکھا کہ سالک کامل ہر لمحہ کو لمحۂ اخیر سمجھتا ہے اوراسی کی تیار ی رکھتاہے ،یہی حال حضرت رحمۃاللہ علیہ کاتھا ،کوئی چیز کرنی باقی نہ تھی ،تمام انتظامات ،حساب و کتاب اور وصایا سے پوری پوری فراغت تھی ،عادت شریف تھی کہ آج کاکام کل پر اٹھا کر نہیں رکھا ،گویا ہر وقت آمادہ ٔ سفر تھے۔ خاکسار کو بھوپال کی مجلس کی تاریخ ۹؍ کو تار سے معلوم ہوچکی تھی ،۱۰؍کورفیق سفر مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب کا بھی مکرمت نامہ آگیا،۱۱؍کی صبح کی مجلس کے بعد رخصت کی درخواست پیش کی ،بایں ہمہ ضعف وقوت لیٹے ہی لیٹے دونوں ہاتھ رخصت کے لئے بڑھائے ،حقیر نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر دست مبارک کو بوسہ دیا اور آنکھوں کو ملا ،آہ !کس بلاکا رخصتانہ تھا،فرمایا،’’جاؤ خدا کے سپرد کیا ۔‘‘یہ لفظ کانوں نے پہلے نہیں سنے تھے ،آنکھیں ڈبڈبا آئیں اوردیر تک چہرۂ مبارک پرجمی رہیں ،کہ یہ جمال جہاں آرا شاید پھر دیکھنے کو نہ ملے ،سو ایسا ہی ہوا۔بعد کے اخیر حالات خاکسار کے جانے کے دو ایک روز کے بعد حکیم عبد المجید صاحب تشریف لے آئے اور علاج اپنے ہاتھ میں لیا ،پہلے روزعرق دانۂ انار دیا ،دوسرے روز ایک بٹیر کی یخنی دلوائی ،تیسرے روز دو بٹیروں کی ،مگر حکیموں کی ہر مسیحائی تدبیر محکمۂ تقدیر سے رد ہوتی رہی ،حکیم صاحب کا ایک ہفتہ علاج رہا،مگر حالت میں تغیر نہیں ہوا ،میں نے بھوپال سے مولانا جمیل احمد صاحب کو طلب خیریت کا خط لکھا ،جس کے جواب میں دو شنبہ کے روز یعنی جس کی آنے والی شب میں وفات ہوئی، یہ تحریر فرمایا: