مکاتبت سلیمان |
|
جامعیت اور ان کے علوم ومضامین کا تنوع ہے، ان کی ذات اور ان کی علمی زندگی میں قدیم وجدید واقفیت ، علمی تبحر اور ادبی ذوق، نقاد ومؤرخ کی حقیقت پسندی اور سنجیدگی، ادباء وانشاء پردازوں کی شگفتگی اور حلاوت اور فکر ونظر کا لوچ اور مطالعہ کی وسعت اس طرح جمع ہوگئی تھی ، جو شاذ ونادر جمع ہوتی ہے۔ ۱؎ سید صاحب نے جن اساتذہ اور علمی سر پرستوں کی رہنمائی اور جس ماحول میں ذہنی وعلمی تربیت حاصل کی تھی اس کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ ان کی نظر میں وسعت اور ان کی طبیعت میں اعتدال تھا ، نہ ان میں بہت سے قدیم علماء کا سا جمود اور گروہی عصبیت تھی ، نہ جدید طبقہ کی عجلت وسطحیت اوریورپ کی مرعوبیت، وہ اپنے تعلیمی خیالات سے لے کر فقہی مسلک تک وسیع النظر وسیع القلب اور معتدل تھے۔ یہ نظر کی وسعت اور قلب کی فراخی تھی کہ انہوں نے ہندوستان کی ایک نامور علمی جماعت اور مشہور ادارہ کے سب سے بڑے آدمی ہوتے ہوئے اور اپنے مخصوص تعلیمی واصلاحی خیالات رکھنے کے باوجود مولانا اشرف علی تھانویؒ سے رجوع واستفادہ کیا، اور اس میں ان کو کوئی رکاوٹ محسوس نہیں ہوئی وسعتِ نظر کی ایسی مثالیں طبقہ علماء میں کم ملیں گی۔ ۲؎اصلاح نفس اور تزکیہ باطن کے لئے حکیم الامت حضرت تھانویؒ سے اصلاحی تعلق ۴۰، ۴۱ء کا زمانہ تھا کہ سید صاحب علم وتحقیق کے چشموں سے سیراب ہوکر اور علوم دینیہ اور تاریخ وادبیات کے سمندر میں بار بار غوطہ لگانے کے بعد اپنی روح کی پیاس اور ’’قلب کی کسی اور چیز کی تلاش ‘‘محسوس کرنے لگے تھے ۔ ------------------------------ ۱؎ پرانے چراغ ص:۵۳ ۲؎ ایضاً ص۶۱۔