مکاتبت سلیمان |
|
سر محمد اقبال ؔدوسرے سرراس مسعود تیسرے مولانا سید سلیمان ، پھر اس پورے عرصہ میں ہم ان کو کانگرس کے مخصوص جلسوں میں شرکت کرتے اور خلافت وجمیعۃ العلماء کے سالانہ جلسوں کی صدارت کرتے دیکھتے ہیں ، ہر جگہ ان کی رائے کا وزن ، ان کی شخصیت کا وقار اور ان کی واقفیت کا اعتراف پاتے ہیں ، اسی کیساتھ مسلم ایجوکیشنل کا نفرنس جامعہ ملیہ انجمن ترقی اردو ، اورہندوستانی اکاڈمی ان کے گراں قدر علمی خطبات ومقالات سے مالا مال ہے ، پھر ان تمام مصروفیتوں اور سفروں میں ان کے علمی انہماک اور تصنیفی تسلسل میں فرق نہیں آتا اور اسی عرصہ میں ان کی وہ محققانہ کتابیں شائع ہوتی ہیں ، جن کو پڑھ کر بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کا مصنف ملک کی سیاسی زندگی میں شریک اور ملک کے انقلابی تقاضوں اور امنگوں کو سمجھنے والا اور ان کا ساتھ دینے والا ہے۔ ۱؎سید صاحب کا فہم قرآن میں بلند مقام عام طور پر لوگ سید صاحب کو مؤرخ یا ادیب کی حیثیت سے جانتے ہیں خصوصاً علماء کے قدیم حلقہ میں ان کا تعارف اسی سلسلہ سے ہے، لیکن مجھے سید صاحب کی علمی صحبتوں اور ذاتی استفادہ سے معلوم ہوا کہ ان کا امتیازی مضمون قرآن مجید اور علم کلام ہے، میں نے معاصر علماء میں کسی شخص کا مطالعہ قرآن مجید اور علوم قرآن کا اتنا وسیع اور گہرا نہیں پایا، علم کلام اور عقائد پر سید صاحب کی نظر بہت عمیق ووسیع تھی، اور ان کو علم کلام کو سلف کے اصول اور کتاب وسنت کی روشنی میں عصر حاضر کے ذہن اور روح کے مطابق پیش کرنے کا خاص ملکہ حاصل تھا۔ ۲؎ میرا تاثر یہ ہے کہ میں نے قرآن مجید کے بارے میں کسی کا فہم اتنا عمیق نہیں پایا جتنا مولانا سید سلیمان ندوی کا، یہ ایک تاریخی انکشاف ہے، لوگ سید صاحب کو مؤرخ اور ------------------------------ ۱؎ پرانے چراغ ص۵۵ ۲؎ پرانے چراغ۔ ص:۵۸