مکاتبت سلیمان |
دوسرا مضمون حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی شان مجددیت حق تعالیٰ کی تقدیراور اس کا تکوینی نظام اللہ تعالی ٰ کی یہ سنت جاری ہے کہ جب ضرورت پیدا ہوتی ہے توا س کے دفعیہ کا بھی سامان پیداکردیتے ہیں ،رات کے اندھیرے میں چانداور تاروں کے چراغ جلا دیتے ہیں ، گرمی اور اُمس جب شدت کو پہونچ جاتی ہے تو ابر رحمت نازل فرماتے ہیں ،جہاں بیماریاں وہیں اس کی دوائیں اُگاتے ہیں اور تدبیر یں بتاتے ہیں ،بالکل یہی حال امراض باطنی اور احوال نفسانی کاہے،جب فساد ظاہر ہوتا ہے، صلاح کی تدبیر ابھرتی ہے۔ جب ظلمت انتہا کو پہونچتی ہے، سپیدۂ نور طلوع ہوتاہے، ضلالت کے ساتھ ہدایت ،کفر کے ساتھ ایمان ،آزر کے ساتھ ابراہیم (علیہ السلام) اور فرعون کے ساتھ موسی( علیہ السلام) کا ظہور ہوتا ہے۔ اسی اصول پر دنیا میں تاریکی کے ہر دور میں نبوت کا نیا نور چمکا اور دنیا کو روشن کر گیا ، آخر حضور رسالت مآب خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود پاک پر جب شریعت اتمام پر پہونچی اور دین کامل ہوگیا اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی ٰ نے اپنے اوپر لی تو نسل ِ انسانی کو اس شریعت کی راہ دکھانے اور اس دین کے مسائل کو بتانے اورنئے نئے زمانہ کے نئے نئے فتنوں سے محفوظ رکھنے اور دین و شریعت کو تحریف و تبدیل سے بچانے اور شکوک و شبہات کو مٹانے کے لئے ہر دور میں ایسی ہستیاں ظاہر فرمائی جاتی رہی ہیں ،جو دین کو اپنے اصلی جادہ پر قائم رکھ سکیں اور اس کے چشمۂ صافی کو گردو غبار سے صاف کرکے مصفارکھیں ۔