مکاتبت سلیمان |
دل کے لئے مرہم کاکام دیا، سید صاحب مولانا کے ساتھ اسی احترام اور تواضع سے(پیش آئے) جیسے کوئی مسترشد اپنے شیخ کے ساتھ پیش آتا ہے ، مولانا بھی ان کا بڑا احترام کرتے تھے ، اور ان کے علم ، ان کے مقام ، ان کی طلب صادق اور اخلاص کے بڑے معترف اور قدرداں تھے، اس زمانہ میں سید صاحب پر ذکر جہر کا بہت غلبہ تھا ، دونوں حضرات کا قیام مہمان خانہ ہی میں تھا ، مولانا الیاسؒ سید صاحب کے اس ذوق کو دیکھ کر بہت مسرور تھے ۔ ۱؎ رجب۱۳۶۲ھ (جولائی ۱۹۴۳ء )میں مولانا محمد الیاس صاحبؒ لکھنؤ تشریف لائے اور اس کی وجہ سے شہر میں ایک خاص برکت ورونق اور دینی وایمانی فضا پیدا ہوگئی ، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب بھی دوسرے روز تشریف لے آئے ایک بڑی تبلیغی جماعت بھی آئی ہوئی تھی، ہم سب لوگ اسی دینی دعوت اور تبلیغی نقل وحرکت میں مصروف اور مسرور تھے کہ ’’ اچانک یہ جانگداز اور روح فرسا خبر سنی کہ ۱۷؍رجب ۱۳۶۲ھ (۱۹؍ جولائی۱۹۴۳ء ) کو تھانہ بھون کا یہ آفتاب علم وارشاد غروب ہوگیا، حضرۃ الاستاذ مولانا سید سلیمان ندوی بھی ٹھیک انہی دنوں میں لکھنؤ تشریف لائے ، معلوم نہیں انہوں نے یہ خبر راستہ میں سنی یا لکھنؤ آکر لیکن ان کی بے قراری اور رنج وقلق دیکھنے کا تھا ، اس وقت ہم لوگوں کو اندازہ ہوا کہ ان کو اپنے شیخ سے کیسا گہرا تعلق ہے۔ ۲؎سید صاحب کے نزدیک ندوہ نام ہے قلب درد مند ، ذہن ارجمند اور زبان ہوشمند کے مجموعہ کا رجحان اور ذوق کی تبدیلی اور عمر کی ترقی کے ساتھ ساتھ سید صاحب کا دار العلوم کے بارے میں ذوق ورجحان بھی خاصہ بدل گیا تھا، اب وہ اس کو محض ایک علمی ادارہ اور ------------------------------ ۱؎ پرانے چراغ ص۳۸ ۲؎ ایضاً ص۱۳۳