مکاتبت سلیمان |
|
علامہ سید سلیمان ندوی ؒ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی خدمت میں کیوں تشریف لے گئے تھے حیات سلیمان کے مصنف شاہ معین الدین صاحب ؒ تحریر فرماتے ہیں : در حقیقت تصوف وسلوک وہی چیز ہے جس کو قرآن مجید نے احسان سے تعبیر کیا ہے، یہ اخلاص فی العمل کی وہ کیفیت ہے جو محض کتابوں سے نہیں پیدا ہوتی، بلکہ اس کے لئے کسی صاحبِ دل سے تعلق ، اس کی صحبت اور ریاضت ومجاہدہ ضروری ہے، آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری حدیثیں کتابوں میں محفوظ ہیں ، جو سب کی نظر سے گذرتی ہیں ، بڑے بڑے کثیر الروایۃ صحابہ سے زیادہ ایک ایک محدث کو حدیثیں یاد ہیں ، اور ان سے بقدر صلاحیت فائدہ بھی پہنچتا ہے، لیکن جو تاثیر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چند روزہ صحبت نے صحابہ کرام میں پیدا کردی تھی وہ اس پورے ذخیرہ کے حفظ سے پیدا نہیں ہوتی، پھر صحابہ کرام کی تعداد کئی لاکھ تھی، ان کے درجات کے لحاظ سے ان کا شرف مسلم ہے ، لیکن ان میں سے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنا قرب اور واختصاص حاصل تھا، اسی قدر ان کو احسانی کیفیت سے حصہ ملا، اسی لئے بعد کے صحابہ مہاجرین اولین کے برابر نہیں ہیں ، ان میں بھی عشرہ مبشرہ کا خاص درجہ ہے اس لئے جب عہدِ رسالت میں احسان کی کیفیت کو پیدا کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ضروری تھی تو اس زمانہ میں جب کہ مسلمانوں کی مذہبی روح مضمحل ہوگئی ہے، دلوں پر سیکڑوں حجابات پڑ گئے ہیں کسی صاحب دل شیخ کی صحبت اور بھی زیادہ ضروری ہے، اس سے جو اثر پیدا ہوتا ہے وہ محض کتابوں سے نہیں ہوسکتا۔ اسی کیفیت کو پیدا کرنے کے لئے بڑے بڑے ائمہ اسلام نے اپنے دور کے شیوخ کی طرف رجوع کیا ہے، اس لئے اگر سید صاحب نے( حکیم الامت حضرت) مولانا اشرف علی(صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ) کی طرف رجوع کیا تو اس سے ان کے علمی مرتبہ میں کیا فرق آتا ہے۔ (حیات سلیمان ص:۶۸۶)