مکاتبت سلیمان |
|
بیعت کے بعد حضرت سید صاحب ؒ کا حال مولانا عبد الباری ندوی مد ظلہ ہی کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں : دس بارہ برس سے جو چیز نظری طور پر سمجھ میں نہ آتی تھی وہ عملاً سمجھ میں آگئی، اور اب تلافی مافات میں مصروف ہوں ، لعل اللہ یرزقنی صلاحا۔ اب نہ دار المصنفین سے زیادہ دلچسپی سے نہ ندوہ سے نہ علمی مقالات وتصنیفات سے ، چونکہ میری روزی قلم سے وابستہ ہے، اور گھر میں اثاثہ بھی نہیں ، اس لئے ناچار پڑا پھر تا ہوں ، خدا تعالی ہمت دے کہ ترک تعلق کرسکوں ۔٭ ۱؎ ۔ حضرت مولانا عبد الباری صاحب کے نام ایک اور خط میں تحریر فرماتے ہیں : ’’میں پوری کوشش کررہا ہوں کہ رفقاء میں وہ فضا پیدا ہو جس کی تمنا آپ کو ہے، مگر ظاہر ہے کہ مجھی میں کیا ہے جو دوسروں پر اثر ہو، حضرت (حکیم الامت تھانویؒ) کی باتیں ان کو سناتا ہوں اور ان کی تصنیفات کی طرف متوجہ کرتا ہوں ‘‘ ۔ ’’میرا مذاق یہ ہے کہ شیخ وقت قائم مقام نبی ہے ان امور میں جو مختص بالنبوت نہیں ‘‘۔ ۲؎ بہرحال اب دل کی دنیا زیر وزبر ہوگئی، فکر ونظر کی قدریں بدلیں ، اپنی اس حالت کا نقشہ مولانا مسعود عالم مرحوم کے ایک خط میں بھی حضرت والاؒ نے ہی ایجاز کے ------------------------------ ٭ ٹھیک یہی حال حضرت امام غزالیؒ کا علامہ شبلیؒ نے ’’الغزالی‘‘ میں تحریر فرمایا ہے، امام غزالیؒ کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں : بالآخر میں نے سفرکا قطعی ارادہ کر لیا ، علماء اور ارکان سلطنت کو جب یہ خبر ہوئی تو سب نے نہایت الحاح کے ساتھ روکا اور حسرت سے کہا کہ یہ اسلام کی بدقسمتی ہے ، ایسی نفع رسانی سے آپ کا دست برادر ہونا شرعاً کیوں کر جائز ہوسکتا ہے، تمام علماء وفضلاء یہی کہتے تھے لیکن میں اصل حقیقت سمجھتا تھا، آخر سب چھوڑ چھاڑ کر دفعتہ اٹھ کھڑا ہوا اور شام کی راہ لی۔ ‘‘المنقذمن الضلال، للغزالی ، ص:۲۲) ۱؎تذکرہ سلیمان ص ۱۳۰،سلیمان نمبر معارف ص۹۵ ۲؎ سلیمان نمبر، ص:۹۷ و ص:۱۰۲)