مکاتبت سلیمان |
|
توجہ الی الذکر یا توجہ الی المذکور کی حقیقت مضمون :- میں ذکر نماز مغرب کے بعد کرتا ہوں میرے لئے سکون کا وقت یہی ہوتا ہے، توجہ الی الذکر تو بحمد اللہ حاصل ہورہی ہے، انوار والوان جن کی قدر مجھے پہلے بھی نہ تھی مگر حضرت کی تحریرات کے بعد تو ان کی طرف توجہ بھی ہوجاتی ہے تو محض یکسوئی کے لئے۔ جواب :- مضائقہ نہیں خود یکسوئی مقصود بالذات نہیں ، فضلاً عن مقدمتہ۔ مضمون :- توجہ الی المذکور بلا کیف سمجھ میں نہیں آتی تھی اتفاقاً مولانا عیسیٰ صاحب سے ان کے وطن میں ملاقات ہوئی، میں نے اس کو پوچھا تو انہوں نے حدیث مشہور ’’اعبد ربک کانک تراہ‘‘ پڑھی جس سے ساری مشکل حل ہوگئی اور یہ دولت بھی نصیب ہوئی۔ جواب :- میں احتیاطاً آپ کے اشکال اور ان کے حل اور آپ کی تسلی کی تقریر معلوم کرنا چاہتا ہوں ۔ مضمون :- مگر ایک عارض ایسا پیدا ہوگیا کہ اس حضور سے (جو حدیث ’’ان تعبد اللہ‘‘ کا بعض کے نزدیک مدلول ہے ۔۱۲ اشرف) شرم آتی ہے خیال آجاتا ہے کہ میں تو ایسا گنہگار اور سیہ کار ہوں میں سامنا کیسے کروں یہ خیال آتے ہی ہٹ جانا پڑتا ہے۔ جواب :- (بعد تسلیم دلالت) یہ بعد اس قرب سے بھی زیادہ معین فی المقصود ہے بلکہ اس قرب کی روح یہی ہے اسی عظمت کے پیدا ہونے کے لئے اس مراقبہ کی تعلیم کی گئی تو یہ بُعد صوری ہے اور قرب حقیقی ۔ ۱؎ مضمون :- حضرت نے اپنی تعلیمی شفقت سے میرے اشکال توجہ الی المذکور بلاکیف اور مولانا عیسیٰ صاحب کے جواب ’’اعبد ربک کانک تراہ‘‘ سے اپنی تسلی ------------------------------ ۱ ؎ النورربیع الاول ۱۳۶۱ ھ