مکاتبت سلیمان |
|
طبعی سستی وکاہلی کے باوجود حکم پر عمل کرنا بڑے اجر وثواب کا باعث ہے مضمون :- میں نے اپنی سستی کی شکایت کی تھی، حضرت نے پوچھا تھا کہ یہ طبعی ہے، یا اور کسی سبب سے، سو وہ طبعی تھی اور میں اس سے ملول تھا آج حضرت کے وعظ ملقّب بہ ’’شعبان‘‘ میں اس بیان کو پڑھا کہ طبعی سستی پر پھر احکام کو بجالانا بھی حامل ثواب ہے۱؎ اس سے میرا وہ ملال آج خدا کا شکر ہے کہ دور ہوگیا، اور انبساط عجیب کا باعث ہوا، اور خیال ہوا کہ شاید وضو علی المکارہ جو حدیث میں آیا ہے اس سے بھی یہ اشارہ نکلتا ہو۔ جواب :- بالکل صحیح ہے، اور نصوص میں اس کی صریح تائیدات بہت ہیں ۔۲؎ ------------------------------ ۱ ؎ وہ مضمون یہ ہے ’’کسل طبعی منافی ایمان نہیں مثلا اٹھتے وقت صبح کی نماز کے وقت طبیعت کسل مند ہوتی ہے اور گھسٹ کر اٹھتا ہے تو خود ان کو بھی شبہ ہوتا ہے اور دوسرے بھی کہتے ہیں ۔ اِذَا قَامُوْا اِلیَ الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالیٰ ۔ یہ منافقین کا ذکر ہے کہ جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو کسل مند ہونے کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں ، پس اس سے نفاق کا حکم لگادیتے ہیں ، سو سمجھ لو ایک کسل ہے طبع کی کمزوری کی وجہ سے اور ایک ہے ضعف اعتقاد کی وجہ سے، سو جب باوجود ضعف طبیعت کے بھی طالب حق اٹھتا ہے تو یہ اور زیادہ دلیل ہے ایمان کی، اکثر ذاکرین ایسی حالت کے متعلق مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم منافق ہوگئے میں لکھ دیتا ہوں کہ تم شوق سے اٹھنے والوں سے بڑھ کر ہو، تم کو ایمان اٹھاتا ہے اور شوق سے اٹھنے والے کو شوق اٹھاتا ہے، جس میں وہ مجبور ہو کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جیسے انجن میں آگ بھر دی جائے تو وہ مجبوراً گاڑیوں کو لے اڑے گا، تم نفس سے کشا کشی کرتے ہو پس یہ کسل طبیعت کاہے اعتقاد کا نہیں ۔ (وعظ شعبان ملحقہ حقیقت عبادت، ص:۴۸۸) ۲؎ النور،ماہ صفر ۱۳۶۱ھ ، ص:۴