مکاتبت سلیمان |
|
چنانچہ علاج کے لئے سہارنپور تشریف لے گئے اور چند روز قیام فرماکر واپس تشریف لے گئے، لیکن طبیعت صاف نہیں ہوئی، وطن میں حکیم سعید صاحب گنگوہی کا علاج شروع ہوا اور ورم جگر ومعدہ کا مرض تشخیص ہوا، مگر فائدہ نہ ہوا، اشتہا ساقط تھی، روزانہ اسہال کی تعداد چالیس پچاس تک پہنچ گئی اور ضعف روز بروز بڑھتا گیا، وصال سے قریب بیس روز پہلے حکیم خلیل صاحب سہارنپوری کا علاج شروع ہوا، ضعف معدہ اور ضعف جگر کی تجویز تھی، حکیم صاحب کے علاج سے دستوں میں کمی آگئی مگر اشتہا بالکل ہی ساقط تھی اور ضعف میں ترقی ہی ہوتی رہی۔میری آخری حاضری خاکسار جون کے آخر میں اپنے مستقر سے تھانہ بھون اور پھر بھوپال کے ارادہ سے روانہ ہوا لیکن لکھنؤ پہنچ کر دار العلوم ندوۃ العلماء کے معاملات نے الجھا دیا، لکھنؤ میں ہر روز حضرت کی شدت علالت کی اطلاعیں آرہی تھیں ، حضرت کے ہزاروں معتقدوں کی طرح خاکسار بھی زیارت کے لئے بے چین تھا، حضرت کی طرف سے سخت قد غن تھی کہ باہر لوگوں کو اس شدت علالت او رکیفیت مزاج کی کوئی اطلاع نہ دی جائے تاکہ مخلصین میں اضطراب نہ پیدا ہو، اور وہ سفر کی زحمت نہ اٹھائیں ، جوپہنچ جاتے تھے عام طور سے بطور تنبیہ ان کو اندر جانے کی اجازت نہیں ملتی تھی، اس پر بھی خاکسار خلاف دستور بے اطلاع ۶؍ جولائی کو لکھنؤ سے روانہ ہوگیا اور ۷؍ کی دوپہر کو عین بارش کی حالت میں اسٹیشن سے خانقاہ تک پیادہ پا بھیگتے ہوئے پہنچا، دریافت حال سے معلوم ہوا کہ افاقہ کی صورت ہے جس سے تسکین ہوئی، میرا اس طرح خلاف دستور بے اطلاع اچانک پہنچ جانا حضرت کے لئے تعجب کا موجب ہوا، میری آمد کی خبر دینے والے سے پوچھا، ’’تم مولوی سلیمان کو پہنچانتے بھی ہو یا یونہی کہہ رہے ہو‘‘ اس نے اثبات میں