مکاتبت سلیمان |
|
جواب کل کے لئے اٹھا نہ رکھا جائے، عظیم الشان دفتر الگ ہے۔ تصنیفات میں بلکہ ہر تحریر میں اہل نظر کو یہ معلوم ہوگا کہ گویا مصنف کے سامنے سارے مسائل ومواد یکجا ہیں اور وہ سب کو اپنی اپنی جگہ احتیاط سے رکھتا جاتا ہے، عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ مصنف جس موضوع پر قلم اٹھاتا ہے، اس کو اس میں ایسا غلو ہوجا تا ہے کہ دوسرے گوشوں سے اس کو ذہول ہوجاتا ہے، حضرت کی تصانیف کی خاص بات یہ ہے کہ قلم ہر ایک کی احتیاط اور رعایت کر کے اور غلو سے بچ کر اس طرح نکلتا ہے کہ جاننے والوں پر حیرت چھا جاتی ہے، حضرت کا ترجمۂ قرآن پاک تاثیر، سہولت بیان اور وضوحِ مطالب میں اپنا آپ نظیر ہے، بہشتی زیور کہنے کو عورتوں کی کتاب ہے ، مگر فقہ حنفی کی ضروریات کے لئے انتہائی احتیاط وکاوش کا نتیجہ ہے، تفسیر القرآن کو یوں سمجھنا چاہئے کہ روح المعانی اور تفاسیر ماسبق کی اردو میں حد درجہ محتاطانہ ترجمان ہے، سلوک وطریقت کی کتابوں کا بھی یہی حال ہے۔ حضرت کی تجدید طریقت کا بڑا کمال یہ ہے کہ طریقت کو جو ایک زمانہ سے صرف چند رسوم کا مجموعہ ہو کر رہ گئی تھی، زوائد وحواشی سے صاف کر کے قدماء او رسلف صالحین کے رنگ پر لے آئے۔ ع کبھی فرصت سے سن لینا بڑی ہے داستان میریعلالت طبع حضرت کی صحت ادھر چند سالوں سے روبانحطاط تھی، دو دفعہ خاص علاج کی غرض سے لکھنؤ تشریف لانا ہوا اور دونوں دفعہ صحت وعافیت کے ساتھ مراجعت ہوئی، علالت اصلی یہ تھی کہ معدہ وجگر کا فعل صحیح نہیں رہا تھا، علاج سے طبع مبارک اصلاح پذیر ہوجاتی تھی، مگر بالکلیہ ازالہ نہیں ہوتا تھا، اس دفعہ تین ماہ سے طبیعت پر اضمحلال طاری تھا،