مکاتبت سلیمان |
علامہ سید سلیمان ندویؒ کا پہلا مکتوب حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی خدمت میں حضرۃ العلامہ المفضال متع اللہ المسلمین بطول بقائکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ رسالہ النورؔ متضمن رسالہ ’’کشف الدجی ‘‘ مع ہدایت نامہ سرفرازی کا باعث ہوا، میں اس کو اپنے لئے سعادت کا طغریٰ سمجھتا ہوں کہ آپ اس ظلوم وجہول سے تقریظ لکھنے کو فرمائیں ، خدا گواہ ہے کہ میں اپنے کو اس سے کمتر سمجھتا ہوں کہ آپ کی کسی تحریر پر تقریظ لکھوں ، مجھے یہ بھی شک ہے کہ میرا طریقۂ تحریر اور طرز استدلال پسند خاطر اشرف ہو مگر بحکم الامر فوق الادب تعمیل کروں گا، اگر میرا یہ عذر قابل پذیرائی نہ ٹھہرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہی زبان کے متعلق فیصلہ ہو کہ عربی ہو یا اردو ، جواب کے لئے لفافہ وٹکٹ کی حاجت نہیں ۔ حضرت مستفتی میرے استاذ شیخ ہیں ، یہ رسالہ انہوں نے مجھے حیدر آباد (دکن) میں خود دیکھنے کے لئے دیا تھا، اور میں اس کو بغور پڑھنے کے لئے ساتھ لایا تھا، پڑھ کر ان کو میں نے ان الفاظ کے ساتھ اس کو واپس کیا کہ آپ جس کو مکروہ سمجھتے ہیں میں اس کو عین ربوا کہتا ہوں اور میرے نزدیک تو قیل وقال وروایت سے زیادہ مستحکم دلیل عمل سلف کرام ہے کہ یہ ایسا کھلا ہوا اور شدید الاحتیاج مسئلہ ہونے کے باوجود کسی نے اس کو جائز نہیں بتایا اور نہ اس پر کبھی عمل کیا، لفظ بیع ودین وقرض کے اصطلاح سے بڑھ کر لغت کا فیصلہ ہے، رسالہ کشف الدجی کے مطالعہ سے بہرہ مند ہوا، طرز عبارت اور انشاء کی سلاست اور جاذبیت نورٌ علی نور ہے۔