مکاتبت سلیمان |
|
،جس کی زبان شریعت و طریقت کی وحدت کی ترجمان تھی،جس کے قلم نے فقہ و تصوف کو ایک مدت کی ہنگامہ آرائی کے بعد باہم ہم آغوش کیا تھا،اور جس کے فیض نے تقریباً نصف صدی تک اللہ تعالیٰ کے فضل و توفیق سے اپنی تعلیم و تربیت اور تزکیہ وہدایت سے ایک عالَم کو مستفید بنارکھا تھا اورجس نے اپنی تحریر و تقریر سے حقائق ایمانی، دقائق فقہی،اسرار احسانی اوررموزِ حکمت ربانی کو برملا فاش کیا تھا اوراسی لئے دنیا نے اس کو حکیم الامت کہہ کر پکا را اور حقیقت یہ ہے کہ اس اشرفِ زمانہ کیلئے یہ خطاب عین حقیقت تھا۔سوانح حضرت کی پیدائش ۵؍ربیع الثانی ۱۲۸۰ھ کو چہار شنبہ کے دن ہوئی، ابتدائی عربی تعلیم تھانہ بھون میں مولانا فتح محمد صاحب تھانوی سے حاصل کی،۱۲۹۵ھ سے شروع ۱۳۰۱ ھ تک مدرسہ دیوبند میں رہ کرمولانا یعقوب صاحب کے حلقہ میں تکمیل کی ،فراغت کے بعد ہی ۱۳۰۱ ھ میں مدرّس ہوکر کانپور آگئے اور چودہ سال یہاں مقیم رہے اور اپنے درس ،مواعظ اور فتاویٰ سے لوگوں کو مستفید کیا۔ حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعہ سے بواسطہ خط کے غائبانہ بیعت مہاجر الی اللہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ سے ۱۲۹۹ ھ میں ہو چکی تھی،لیکن ۱۳۰۱ ھ کے آخرمیں ایام حج میں بعد حج حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں اخذ فیض فرمایا اورواپس آکر ۱۳۰۶ھ تک علمی مشاغل ،تصنیف و تالیف اور تدریس کے ساتھ ذکر و شغل بھی ضمناً معمول رہا ،مگر ۱۳۰۷ھ میں مضطربانہ اور والہانہ حج کا دوبارہ ارادہ کیا اور حضرت حاجی صاحب کی خدمت با برکت میں حاضر ہوکردوبارہ ایک زمانۂ خاص تک رہ کر استفادۂ باطنی فرمایا ،واپس آکر ۱۳۱۴ ھ تک پھر کانپور میں رہے، آخر حضرت حاجی صاحب کے مشورہ کے مطابق ۱۳۱۵ھ میں کانپور سے ترک