مکاتبت سلیمان |
|
چنانچہ حکیم الامت کے کسی اشارے کنایہ کے بغیر از خود اپنے احساس سے مجبور ہوکر حضرت والا نے ’’ رجوع واعتراف ‘‘ کے نام سے جنوری ۱۹۴۳ء کے معارف میں ایک تحریر شائع فرمائی جو ان کے اسی حال کی ترجمان ہے ، جس میں مبتلا ہوکر خسروبے ریا کہہ اٹھا تھا: خلق میگو ید کہ خسرو عشق بازی می کند آرے آرے میکنم باخلق عالم کا ر نیست وہ تحریر دلپذیر یہ ہے ، ذرادل ودماغ کی یکجائی اور یکسوئی کے ساتھ ملاحظہ ہوتا کہ اس حال عالی کا فیضان آپ پر بھی ہو سکے ۱؎علامہ سید سلیمان ندویؒ کااپنی بعض تحقیقات سے رجوع حضرت علامہ سید سلیمان ندوی ؒ تحریر فرماتے ہیں : میری پیدائش صفر ۱۳۰۲ھ میں ہوئی اور اب یہ محرم ۱۳۶۲ھ شروع ہوگیا، یعنی میری عمر نے زندگی کے ساٹھ مرحلے طے کر لئے، میری تحریر کا آغاز ۱۹۰۲ء سے ہوا ہے اور اب ۱۹۴۲ء ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ میری تحریری عمر نے چالیس سال پورے کر لئے، جب اس پر نظر جاتی ہے کہ اس ساٹھ سال کی زندگی میں کیا کیا کوتاہیاں ہوئیں اور کیسی کیسی لغزشیں پیش آئی ہوں گی تو دل بے اختیار پکار اٹھتا ہے : از کردہ ٔ ناصواب یارب توبہ تحریری زندگی کے چالیس سال پورے ہوگئے، یاد نہیں کہ ان چالیس برسوں میں قلم نے کیا کیا لکھا اور کہاں کہاں غلطی کی، اتباع حق کے بجائے اتباع ہویٰ کے موقعے کہاں کہاں پیش آئے اور اب بھی اپنی موجودہ حالت پر بزبان حال یہ صدائے غیب آتی ہے ؎ ------------------------------ ۱؎ تذکرہ سلیمان ص۱۴۵