مکاتبت سلیمان |
|
اس تصور واستحضار سے تسلی وتشفی ہوتی ہے کہ حضرت تھانویؒ میرے اس طرز عمل کو پسند فرماتے مولانا عبدالماجد صاحب تحریر فرماتے ہیں : سید صاحب بھوپال بڑے تذبذب کے ساتھ گئے تھے اور وہ تذبذب اب تک قائم تھا، ڈرتے تھے کہ کہیں اس کا شمار حب جاہ میں نہ ہو، میں نے لکھا تھا کہ جو دینی خدمت آپ نے اپنے سر لی ہے تو حضرت تھانویؒ اگر ہوتے تو میں وجداناً کہتا ہوں کہ وہ ضرور اسے پسند فرماتے۔(عبدالماجد) علامہ سید سلیمان ندوی ؒ اس کے جواب میں میں تحریر فرماتے ہیں : ’’آپ کے اس وجدان سے کہ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ میرے اس طرزِ عمل کو پسند فرماتے بڑی تسلی ہوئی کہ، ابھی تک تو میرا عزم یہی ہے کہ مستقل قیام نہ کروں ۔ واللہ اعلم بما یکون۔‘‘۱؎من تواضع للّٰہ رفعہ اللّٰہ جناب ڈاکٹر غلام محمد صاحب تحریر فرماتے ہیں : عجیب بات ہے کہ جن دنوں حضرت والا ؒ مٹنے مٹانے پر تلے ہوئے تھے ، قدرت نے ایک اور ظاہری اعزاز سے نواز نا چاہا۔ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ نے یہ طے کیا کہ علامہ ندوی کے کمالات علمی وادبی کے اظہار اعتراف کے لئے ان کی خدمت میں ڈی،لٹ کی اعزازی ڈگری پیش کرے، حضرت والا کو اس کی اطلاع ملی تو حضرت نے اپنے شیخ کی خدمت میں اس اعزاز کے عطا کئے جانے کی حقیقت وصورت کی ساری تفصیل لکھ بھیجی اور اس بارے میں شیخ کا فیصلہ طلب کیا، یہ بھی ظاہر فرمادیا کہ اپنے دل میں اس کی کوئی طلب ------------------------------ ۱؎ مکتوبات سلیمان ۔ص: ۱۹۱ج:۲۔