مکاتبت سلیمان |
|
بلا طلب کسی منصب واعزاز قبول کرنے سے متعلق سید صاحبؒ کا استفسار اور حضرت تھانویؒ کا جواب مضمون :- اس شرح میں امراض روحانی مثلاً ریاء وکبر وفخر وحب جاہ ومال وغیرہ سے پاک ہونے کی بھی ہدایت فرمائی گئی، اس سلسلہ میں عرض ہے اللہ تعالی کا یہ عجیب معاملہ اس بے استحقاق کے ساتھ ہے کہ خاکسار نے کبھی کسی منصب یا عہدہ کے لئے یا کسی اعزاز کے لئے کبھی جد وجہد نہیں کیا بلکہ اکثر اشراف نفس بھی نہیں ہوا۔ مگر اللہ تعالی نے مجھے خلق میں ظاہری قومی وعلمی مناصب کے اعزاز بلا طلب مرحمت فرمائے، اب تک مجھے اس بارہ میں صرف اس قدر اہتمام رہا کہ میری طلب اور اشراف نہ ہو، اور مل جائے تو قبول کرلیا اب اس باب میں حضرت کی ہدایت کا منتظر ہوں کیوں کہ ایسے موقع پیش آتے رہتے ہیں ، شرم وحیاء کو کچھ دیر نظر انداز کرکے یہ بھی عرض کروں کہ بحول اللہ تعالی وفضلہ، یہ چیزیں نفس میں فخر وکبر کا موجب اب تک نہیں بنیں ، یہ صرف اللہ تعالی کا فضل ہے ورنہ بندہ کی کیا مجال جو کچھ کہہ سکے یا کر سکے حضرت سے اپنے کسی عیب کا چھپانا طبیب سے اپنی بیماریوں کا اخفا ہے، اس لئے عرض کی ضرورت ہوئی۔ جواب :- مشورہ میں تو برکت ہی برکت ہے، جو تفصیل تحریر فرمائی ہے، اپنی ذات میں تو یہی کافی ہے اور اخیر حالت منتہی اور کامل کی یہی ہوجاتی ہے، لیکن چونکہ یہ طریق غامض بہت ہے اور اس کا پورا مصداق ہے ؎ در راہ عشق وسوسہ اہر من بسے ست اس لئے احتیاط بلیغ سے اس میں کام لیا گیا ہے اور مصرعہ اولیٰ کے ساتھ دوسرا مصرعہ اس پر ترتب کے طور پر لگا یا گیا ہے ۔ ع ہشد ارو گوش رابہ پیامم سروش (وحی) دار