مکاتبت سلیمان |
بیعت کا رسمی طریقہ غیر ضروری ہے یہ میں نہیں کہتا بلکہ ہمارے بزرگوں کا ارشاد ہے ۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ حکیم الامت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں : بیعت کی ایک حقیقت ہے ایک صورت ،حقیقت اس کی ایک عقد ہے درمیان مرشد ومسترشد کے ، مرشد کی طرف سے تعلیم کا اور مسترشد کی طرف سے اتباع کا… یہی وہ بیعت ہے جس کا لقب اس وقت پیری مریدی ہے ۔ چونکہ اس کے فرض یا واجب یاسنت موکدہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں اور حضرۃ نبویہ سے دین کی حیثیت سے منقول ہے لہٰذا یہ بیعت مستحب ہوگی اور جس نے اس کے فرض یا واجب ہونے پر آیت یَااَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُواللّٰہَ وَابْتَغُوْ اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ سے استدلال کیا ہے محض بے دلیل اور تفسیر بالرائے ہے ، صحیح تفسیر وابتغواالیہ القرب بالطاعاتہے ۔ اسی طرح جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پر مداومت ثابت نہیں ،ہزار مومن اس خاص طریقہ پر اس زمانے میں حضور سے بیعت نہیں ہوئے اس لئے اس کو سنت موکدہ بھی نہ کہیں گے یہ سب تفصیل اس کی حقیقت میں ہے۔ اور ایک اس کی صورت ہے یعنی معاہدہ کے وقت ہاتھ پر ہاتھ رکھنا یاکپڑا وغیرہ ہاتھ میں دے دینا ہے تو یہ عمل مباح ہے لیکن مامور بہ کے کسی درجہ میں نہیں حتیٰ کہ اس کے استحباب کا بھی حکم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جو منقول ہے وہ بطور عبادت اور دین کے نہیں بلکہ بطور عادت کے ہے، کیونکہ عرب میں معاہدہ کے وقت یہ رسم تھی ، چنانچہ اسی عادت کی بنا پر اس کوصفقہ بھی کہا جاتا ہے ۔ خلاصہ یہ کہ یہ بیعت معتادۂ صلحاء حقیقت کے اعتبار سے مستحب سے زیادہ نہیں اور اس کی خاص ہیئت مباح سے زیادہ نہیں ، لہذا اس کا درجہ علماً یاعملاً بڑھانا مثلاً اس کو شرط نجات قرار دینا یا تارک پر طعن کرنا یہ سب غلو فی الدین اور اعتداء حدود ہے ، اگر کوئی شخص عمر بھر بھی بطریق متعارف کسی سے بیعت نہ ہو اور خود علم دین حاصل کرکے یا علماء سے تحقیق کر کر کے اخلاص کے ساتھ احکام پر عمل کرتا رہے وہ ناجی اور مقبول اور مقرب ہے البتہ تجربہ سے یہ کلیاً یا اکثریاً مشاہدہ ہوگیا ہے کہ جو درجہ عمل اور اصلاح کا مطلوب ہے وہ بدون اتباع وتربیت کسی کامل بزرگ کے بلاخطر اطمینان کے ساتھ عادۃ حاصل نہیں ہوتا ، مگر اس اتباع کے لئے بھی صرف التزام کافی ہے ، بیعت متعارف شرط نہیں ۔ (النور ذی قعدہ ۱۳۵۸ھ البدائع بدیعہ ۵،ص ۱۵ ) (باقی اگلے صفحہ پر)