مکاتبت سلیمان |
|
اجازت وخلافت کے بعد کے کہے ہوئے چند اشعار براہ الٰہ آباد بتقریب خلافت ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۴۲ء ابھی تو مشق فغا۱؎ں کنج ۲؎میں ہز۳؎ ارکرے اثر۴؎کے واسطے کچھ اور انتظار کرے جو آج لذت دردِ نہاں کا جویا ہے وہ پہلے سوز سے دل کو تو داغدار کرے انہیں کے دینے سے ملتا ہے جس کو ملتا ہے وہی نہ چاہیں تو کوشش کوئی ہزار۵؎ کرے ادب سے دیکھ لیں مشتاق دور سے ان کو مجال ہے جو کوئی ان کو ہمکنار۶؎ کرے سنا تو دے انہیں افسانۂ غم ہجراں وہ اعتبار کرے یا نہ اعتبار۷؎ کرے وہ اپنے کان سے سنتے ہیں میرے نالوں کو ۸؎ وہ طرزِ نالہ ۹؎ ہو جو ان کو بیقرار کرے تری نظر میں ہے تاثیر مستی صہبا ۱۰؎ تری نگاہ جسے چاہے بادہ خوار کرے۱۱؎ تری نگاہ میں دونوں خواص رکھے ہیں وہ چاہے مست کرے چاہے ہوشیار کرے۱۲؎ (تذکرہ سلیمان ص۱۵۵) ------------------------------ ۱؎ تحلیل ذکر ۲؎ نہاں خانہ دل ۳؎ ذات سالک ۴؎ حصولِ تمکین ۵؎ منصب ومقام ولایت جووہبی ہے یوتیہ من یشاء ، البتہ راہ ولایت کھلی ہوئی ہے جو چاہے پہنچنے کی کوشش کرے ۶؎ یعنی حق تعالیٰ کا وصال حقیقی تو ایک محال عقلی ہے ، البتہ وصال مجازی یعنی بندہ کے حسب استعداد وحجابات کا ارتقاع ممکن بھی ہے اور مقصود بھی ۷؎ یعنی دعاء بذات خود عاشق کا مطلوب ہے۔ ۸؎ اشارہ ہے ’’ ادعونی استجب لکم ‘‘ کے وعدہ ربانی کی طرف ۹؎ مراد آداب دعا جن کی تفصیل احادیث میں موجود ہے ، مثلاً اخلاص ، عجز اور یقین وغیرہ ۱۰؎ یعنی وہ اللہ (ہمہ مہر) ہے، رحمن ، رحیم اور ودود ہے ! ۱۱؎ مراد توفیق الٰہی جس پر کسی کا بس نہیں چلتا ۔ قل ان الہدی ہدی اللّٰہ ۔ (قرآن ) ۱۲؎ یعنی وصول الی اللہ کے دونوں ہی طریق : (۱)اجتباء یا جذب(۲) انابت یا سلوک ۔ طالب مولی بہرحال کامیاب ہے !! ۔ (حواشی از تذکرہ سلیمان ص ۱۵۵)