مکاتبت سلیمان |
|
ضرورت ہے جو ان مسائل کا تشفی بخش جواب دے سکیں ، اس لئے فقہ کی تعلیم پر بہت توجہ کرنا چاہئے ، دارالعلوم کے طلبہ کے سامنے جو تقریر فرمائی تھی اس میں بھی اس پر زور دیا تھا ، بہرحال اردو میں فقہ اسلامی کی تدوین کی تجویز اہمیت رکھتی ہے اور یہ کرنے کاکام ہے‘‘۱؎۔ حضرت مولانا سعید الرحمن صاحب اعظمی ندوی مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ تحریر فرماتے ہیں : ۱۹۵۲ء میں آخری بار سید الطائفہ علامہ سید سلیمان ندوی ؒ مشرقی بنگال کے سفر سے لوٹتے ہوئے ندوہ تشریف لائے تو استقبالیہ جلسہ میں آں جناب نے صرف اسلامی فقہ میں گہرائی اور مہارت حاصل کرنے کے لئے طلبہ کو متوجہ کیا، ان کی یہ فکر مستقبل کے حالات کا اندازہ کرکے بہت زیادہ سنجیدہ تھی۔آج نصف صدی کے بعد ان کی اس روشن ضمیری کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔۲؎حجاز کی تبلیغی جماعتوں کی سرپرستی اور کارکنوں کی ہمت افزائی مفکراسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ تحریر فرماتے ہیں : سید صاحب بھوپال کچھ دن قیام کرکے حج کے لئے روانہ ہوگئے ، ان کا یہ دوسرا یا تیسرا حج تھا جو ۱۳۶۸ھ ۱۹۴۹ء میں ہوا، حجاز کی تبلیغی جماعت نے سیدصاحب کے قیام سے فائدہ اٹھایااور ان کی ترجمانی اور تائید سے حجاز وسعودی عرب کے علمی ودینی حلقوں نیز باہر سے آئے ہوئے اہل علم حجاج میں اس دعوت کی وقعت اور وزن پیدا ہوا ، سید صاحب نے حسب معمول اس خدمت سے دریغ نہیں فرمایا اور مجالس تبلیغ میں شرکت کرکے وہاں کے رفقائے جماعت اور کارکنوں کی ہمت افزائی فرمائی ، واپسی پر میں نے شاید کوئی عریضہ لکھا ، جس میں ان کی اس سرپرستی اور ہمت افزائی کا مناسب الفاظ میں تذکرہ تھا ، ------------------------------ ۱؎ سلیمان نمبر ص ۲۴۹ و۲۵۰ ۲؎ ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج ص۲۲۔