مکاتبت سلیمان |
|
جناب وصل بلگرامی صاحب’’ سفر نامہ لاہورو لکھنؤ ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں : ’’جناب مولانا محمد سلیمان ندوی عدم علم سفر کی وجہ سے حضرت والا سے ملنے کے لئے تھانہ بھون تشریف لے گئے تھے، اور جب علم ہوا کہ حضرت والا لکھنؤ میں تشریف فرما ہیں ، لکھنؤ تشریف لائے اور اپنی تمنا کو پورا کیا ‘‘۔۱؎ مولانا عبد الماجد صاحب دریا آبادی تحریر فرماتے ہیں : ’’مولانا سید سلیمان ندوی اور مولوی مسعود علی ندوی کا باضابطہ تعلق بیعت یہیں ۔ (لکھنؤ میں ) غالباً شروع اکتوبر میں ہوا۔ ۲؎ ’’حکیم الامت قدس سرہٗ اگست ۱۹۳۸ء میں اپنے علاج کے سلسلہ میں لکھنؤ تشریف لائے تھے، اس موقع کو حضرت والا نے غنیمت سمجھا اور حاضر خدمت ہوکر مستقلاً رجوع ہوکر بیعت سے مشرف ہوئے۔‘‘ ۳؎سید صاحب کی بیعت ایک غیر معمولی واقعہ اور دعوت فکر وعمل سید صاحب کی یہ بیعت غیر معمولی واقعہ تھا اس میں انکسار وتواضع ، اخلاص وحقانیت ، اور کردار کی عظمت کے بہت سے پہلو پوشیدہ ہیں ، اور اس میں دعوت ِفکر وعمل موجود ہے سید صاحب نے یہ روحانی قدم اس وقت اٹھایا جب ان کی علمی شہرت کا آفتاب نصف النہار پر تھا ، اور اقبال جیسا علامۂ دوراں انہیں ’’ علوم اسلامیہ کا جوئے شیر کا فرہاد ‘‘ قرار دے رہا تھا ۔ ۴؎ ------------------------------ ۱ ؎ سفر نامہ لاہور ولکھنؤص:۱۱۴ ۲؎ حکیم الامت ، نقوش وتاثرات، ص:۵۷۴ ۳؎ معارف سلیمان نمبر، ص:۲۹۰ ۴؎ تاریخ ندوۃ العلماء ص۴۸۱ج۲۔