مکاتبت سلیمان |
|
آخری دیدار کے موقع پر سید صاحبؒ کے جذبات میں ڈوبے ہوئے چند اشعار اس عنوان اور ان تین اشعار سے متعلق خود حضرت والا (سید صاحب ؒ)نے لکھا ہے کہ جب وہ مولانا تھانویؒ کی خدمت میں آخری بار حاضرہوئے تو حضرت نے از راہِ محبت سرِبالین ایک کرسی پر بیٹھنے کا امرفرمایا، حضرت تھانویؒ پر غنودگی یااستغراق کا عالم بار بار طاری ہوجاتا تھا اور آنکھیں بند فرمالیتے تھے ، صاحب نظم رحمۃ اللہ علیہ اپنے رومال سے مگس رانی فرماتے رہے، اسی عالم میں یہ خیالات ان کے دل ودماغ پر گزرتے رہے!! دل بھر کے دیکھ لو یہ جمالِ جہاں فروز پھر یہ جمال نور دکھایا نہ جائے گا گوش جہاں بغور سنے اس کلام کو پھر یہ کلام شوق سنایا نہ جائے گا اے میکشو یہ درد تہ جام بھی پیو تر سوگے پھر یہ جام پلایا نہ جائے گا ۱؎حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی وفات پر گہرا تاثر مرشد تھانوی نور اللہ مرقدہٗ کی رحلت کا حضرت والا کے قلب مبارک پر جس قدر گہرا اثر ہوا، اس کا اندازہ ہم کیا کرسکتے ہیں ، باقی اتنی بات تو آنکھوں دیکھی ہے کہ اس سانحہ کے کوئی ۹۔ ۱۰ مہینے بعد یعنی مارچ واپریل ۱۹۴۴ء میں جب وہ حیدر آباد دکن تشریف لائے تھے، تو چہرہ بشرہ مرقع غم اور لب ولہجہ اس قدر درد انگیز تھا کہ اہل محفل کے قلوب گداختہ ہوجاتے تھے، یوں معلوم ہوتا تھا کہ حضرت علامہ کا قلب ابھی خون ہوا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ ’’فراقِ یار‘‘ کا یہ اثر برسوں باقی رہا، بلکہ سکون پانے پر بھی آخر حیات تک یہی دیکھا کہ جب ------------------------------ ۱؎ تذکرہ ٔ سلیمان ،ص:۱۸۰۔